بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

عمر رسیدہ بیمار عورت کے لیے نماز کا حکم


سوال

بزرگ کمزور عورت (عمر 90 سال)چار پائی سے اٹھ نہیں سکتی،پیمپر پہنتی ہے،ان کی نماز کا کیا حکم ہے؟چار ماہ سے یہی حالت ہے۔

جواب

اگر مذکورہ بزرگ خاتون سر کے اشارے سے نماز پڑھ سکتی ہیں تو انہیں چاہیے کہ لیٹے لیٹے ہی سر کے اشارے سے نماز پڑھ لیں، اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ کوئی خاتون انھیں وضو کرادیں ،اگر وضو ممکن نہ ہو تو تیمم کرادیں، پھر ان کے سر کے نیچے کوئی اونچی چیز تکیہ وغیرہ رکھ دیں ،بایں طور کہ چہرہ قبلہ رو ہوجائے، پھر ان سے کہیں کہ سر کے اشارے سے نماز ادا کرلیں، بس سجدے کا اشارہ رکوع کے بہ نسبت کچھ زیادہ کریں،  اور اگر چارپائی پر بیٹھ سکتی ہےتو بیٹھ کر نماز پڑھے،باقی نماز کی ادائیگی   کے لیےجگہ ،بدن اورکپڑوں  کا پاک ہونا ضروری ہے؛ لہذااگر  پیمپر اتارنے کے بعد   صفا ئی ممکن ہو یعنی پیمپر اتار نے   اور نجاست کو دھونے  کے بعد پاکی کی حالت میں فرض نمازپوری کرسکتی  ہوں تو اس صورت میں نجس پیمپر کو اتار نا لازمی ہے،اور اگر   استنجا کرنے کے بعد نجاست مسلسل خارج ہونے کی وجہ سے  نماز کے دوران  پھر نجس ہونے کا خدشہ ہو یا  بار بارپیمپر اتا رنے  سے  حرج اوران کے مرض میں اضافے کا خطرہ ہو  تو اس صورت میں نجس پیمپر کے ساتھ بھی نماز ہوجائے گی۔

لیکن اگر وہ سر کے اشارے سے بھی نماز نہیں پڑھ سکتیں تو ان  سے فرض نماز فی الحال ساقط ہے، آئندہ جب صحت ہو اس وقت قضاء کرلیں، اگر قضا  نہ کرسکے اور خدانخواستہ اس حال میں ان کی وفات ہوجائے تو اس سے پہلے جو نمازیں قضا ہوئیں ان کا فدیہ ادا کردیا جائے، سر کے اشارے سے بھی نماز ادا کرنے کی قدرت نہ ہونے کی صورت میں اگرچھوٹی ہوئی فرض نمازیں چھ یا اس سے زیادہ ہوجائیں اور اس حال میں انتقال ہوجائے تو اس وقت کی نمازوں کی نہ تو قضا ہے اور نہ ہی ان کا فدیہ ادا کرنا واجب ہے، صرف پہلے کی چھوٹی ہوئی نمازوں کا فدیہ ادا کیا جائے۔ ایک دن ایک رات میں بہ شمول وتر کل چھ نمازوں کا فدیہ واجب ہے، اور ایک نماز کے فدیے کی مقدار صدقة الفطر کے بقدر ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا عجز المريض عن الإيماء بالرأس في ظاهر الرواية يسقط عنه فرض الصلاة ولا يعتبر الإيماء بالعينين والحاجبين ثم إذا خف مرضه هل يلزمه القضاء اختلفوا فيه قال بعضهم: إن زاد عجزه على يوم وليلة لا يلزمه القضاء وإن كان دون ذلك يلزمه كما في الإغماء وهو الأصح، هكذا في فتاوى قاضي خان، والفتوى عليه، كذا في الظهيرية، وإن مات من ذلك المرض لا شيء عليه ولا يلزمه فدية، كذا في المحيط."

(کتاب الصلاۃ،الباب الرابع عشر في صلاة المريض،ج1،ص137،ط؛دار الفکر)

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"مريض مجروح تحته ثياب نجسة، إن كان بحال لا يبسط تحته شيء إلا تنجس من ساعته له أن يصلي على حاله، وكذا لو لم يتنجس الثاني إلا أنه يزداد مرضه له أن يصلي فيه،والظاهر أن المراد بقوله " من ساعته " أن يتنجس نجاسة مانعة قبل الفراغ من الصلاة."

(كتاب الطهارة،باب الحيض،مطلب في احكام المعزور،ج1،ص307،ط؛سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512100234

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں