بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

امت محمدیہ ﷺ کے ستر ہزار لوگ جو بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے ان کی علامات


سوال

حضرت ابوامامہ  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا: ’’میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ میری امت میں سے ستر ہزار لوگوں کو جنت میں داخل کرے گا، نہ اُن کا حساب ہوگا اورنہ اُن پر کوئی عذاب، (پھر) ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزارہوں گے، اور ان کے سوا میرے رب کی مٹھیوں میں سے تین مٹھیوں کے برابر بھی ہوں گے‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ’’یہ حدیث حسن غریب ہے‘‘۔

 مذکورہ حدیث کی وضاحت کردیں، اِس میں ہزار سے مراد کون ہیں؟اُن کی پہچان کیاہے؟

جواب

حدیث کی وضاحت: 

اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے مفتی سعید احمد پالن پوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’ یہ  حديث شفاعت صغرى کے باب میں اس لیے لائی گئی ہے کہ اللہ پاک کا نبی ﷺ سے یہ وعدہ کہ وہ ایک  بڑی تعدادکو بے حساب اور بے عذاب جنت میں داخل کریں گے، یہ وعدہ آپ ﷺ کا عزاز واکرام ہے، پس یہ وعدہ بھی حکمی شفاعت ہے، اور آخر میں پروردگار عالم جو تین لَپَّیں (لَپّ یعنی مٹھی بھر)بھر کرجنت میں ڈالیں گے یہ بھی حکمی شفاعت ہے، کیونکہ اس کا بھی وعدہ فرمایا گیا ہے ‘‘۔

(تحفۃ الالمعی، ابواب صفۃ القیامۃ، باب منہ، شفاعت صغری کا بیان، (6/ 212)، ط/ مکتبہ حجاز دیوبند)

امت محمدیہ ﷺ کے ستر ہزار لوگ جو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے   ان کی علامات:

بہت سی روایات میں  ذکر آتا ہے کہ ستر ہزار لوگ جنت میں بغیر حساب کتاب کے داخل ہو ں گے، ان میں سے سب سے مفصل  حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  کی ہے، جس کا ذکر ’’صحيح بخاری ‘‘، ’’صحيح مسلم ‘‘اور ديگر كتب حدیث ميں موجود ہے ، اور صحیح  بخاری کی   درج ذیل روايت ميں  ان کی یہ علامات مذکور ہیں کہ ’’یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کراتے، فال نہیں نکالتے اور داغ کر علاج نہیں کرتے ‘‘ روایت ملاحظہ فرمائیں : 

"عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضى الله عنهما قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا النَّبِىُّ صلى الله عليه وسلم يَوْمًا فَقَالَ: عُرِضَتْ عَلَىَّ الأُمَمُ، فَجَعَلَ يَمُرُّ النَّبِىُّ مَعَهُ الرَّجُلُ، وَالنَّبِىُّ مَعَهُ الرَّجُلاَنِ، وَالنَّبِىُّ مَعَهُ الرَّهْطُ، وَالنَّبِىُّ لَيْسَ مَعَهُ أَحَدٌ، وَرَأَيْتُ سَوَادًا كَثِيرًا سَدَّ الأُفُقَ فَرَجَوْتُ أَنْ يَكُونَ أُمَّتِى، فَقِيلَ: هَذَا مُوسَى وَقَوْمُهُ، ثُمَّ قِيلَ: لِى انْظُرْ، فَرَأَيْتُ سَوَادًا كَثِيرًا سَدَّ الأُفُقَ، فَقِيلَ: لِى انْظُرْ هَكَذَا وَهَكَذَا، فَرَأَيْتُ سَوَادًا كَثِيرًا سَدَّ الأُفُقَ، فَقِيلَ: هَؤُلاَءِ أُمَّتُكَ، وَمَعَ هَؤُلاَءِ سَبْعُونَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ، فَتَفَرَّقَ النَّاسُ وَلَمْ يُبَيَّنْ لَهُمْ، فَتَذَاكَرَ أَصْحَابُ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالُوا: أَمَّا نَحْنُ فَوُلِدْنَا فِى الشِّرْكِ وَلَكِنَّا آمَنَّا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَلَكِنْ هَؤُلاَءِ هُمْ أَبْنَاؤُنَا فَبَلَغَ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ: هُمُ الَّذِينَ لاَ يَتَطَيَّرُونَ وَلاَ يَسْتَرْقُونَ وَلاَ يَكْتَوُونَ وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ، فَقَامَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ فَقَالَ: أَمِنْهُمْ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: نَعَمْ، فَقَامَ آخَرُ فَقَالَ: أَمِنْهُمْ أَنَا، فَقَالَ: سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ." 

(صحيح البخاري، كتاب الطب، باب من اكتوى أو كوى غيره وفضل من لم يكتو، (7/ 126) برقم(5705)، ط/ الطبعة السلطانية)

ترجمہ: "حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے سامنے تمام امتیں پیش کی گئیں ایک ایک، دو دو نبی اور ان کے ساتھ ان کے ماننے والے گزرتے رہے اور بعض نبی ایسے بھی تھے کہ ان کے ساتھ کوئی نہیں تھا، آخر میرے سامنے ایک بڑی بھاری جماعت آئی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟  کیا یہ میری امت کے لوگ ہیں؟ کہا گیا : یہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم ہے۔ پھر کہا گیا کہ کناروں کی طرف دیکھو،  میں نے دیکھا کہ ایک بہت ہی عظیم جماعت ہے جو کناروں پر چھائی ہوئی ہے ۔پھر مجھ سے کہا گیا کہ ادھر دیکھو، ادھر دیکھو ، آسمان کے مختلف کناروں میں، میں نے دیکھا کہ جماعت ہے جو تمام افق پر چھائی ہوئی ہے۔ کہا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے اور اس میں سے ستر ہزار حساب کے بغیر جنت میں داخل کر دیئے جائیں گے۔ اس کے بعد آپ (اپنے حجرہ میں) تشریف لے گئے اور کچھ تفصیل نہیں فرمائی، لوگ ان جنتیوں کے بارے میں بحث کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور اس کے رسول کی اتباع کی ہے، اس لیے ہم ہی (صحابہ) وہ لوگ ہیں یا ہماری وہ اولاد ہیں جو اسلام میں پیدا ہوئے؛ کیونکہ ہم جاہلیت میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ باتیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کراتے، فال نہیں دیکھتے اور داغ کر علاج نہیں کرتے ، بلکہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس پر عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں بھی ان میں سے ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ اس کے بعد دوسرے صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں بھی ان میں ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عکاشہ تم سے بازی لے گئے۔"

صحیح بخاری کی مذکورہ روایت کی تشریح کے ضمن میں حافظ  ابن حجر رحمہ اللہ نے ترمذی شریف کی مذکورہ حدیث ابی امامۃ رضی اللہ عنہ بھی ذکر فرمائی ہے ۔

فتح الباری میں ہے: 

"فَأخْرج التِّرْمِذِيّ وَحسنه وَالطَّبَرَانِيّ وبن حِبَّانَ فِي صَحِيحِهِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي أُمَامَةَ رَفَعَهُ وَعَدَنِي رَبِّي أَنْ يُدْخِلَ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعِينَ أَلْفًا مَعَ كُلِّ أَلْفٍ سَبْعِينَ أَلْفًا لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ وَلَا عَذَابَ وَثَلَاثَ حثيات من حثيات رَبِّي."

(فتح البارى، باب يدخل الجنة سبعون ألفا بغير حساب، (11/ 410)، ط/ دار المعرفة - بيروت)

شارحين حديث کے نزدیک "ستر ہزار "  کے عدد کے دو معنی ہیں:
۱۔ یہ عدد حصر  (محدود کرنے) کے لیے ہے، اور صرف ستر ہزار لوگ جنت میں اس صفت کے ساتھ جائیں گے۔

۲۔ یہ عدد حصر کے لیے نہیں، بلکہ  کثرت بیان کرنے  کے لیے استعمال ہوا ہے۔

"مرقاۃ المفاتیح" میں ہے: 

"قوله: (سبعين ‌ألفا) : والمراد به: إما هذا العدد، أو ‌الكثرة. قال الأزهري: سبعين في قوله تعالى: {إن تستغفر لهم سبعين مرة} [التوبة: 80]، جمع السبع الذي يستعمل للكثرة; ألا ترى أنه لو زاد على السبعين لم يغفر لهم."

(مرقاة المفاتيح، (8/ 3530)/، ط/ دار الفكر، بيروت، الطبعة الأولى ١٤٢٢هـ) 

علامہ عبد الرؤوف  مناوی نےحدیث کی دیگر روایات کو پیش نظر رکھ کر دوسری  وجہ( یہ عدد حصر کے لیے نہیں، بلکہ  کثرت بیان کرنے  کے لیے استعمال ہوا ہے) کو راجح قرار دیا ہے: 

"يحتمل أن يراد بقوله ‌سبعون: العدد، وأن يراد ‌الكثرة، ورُجِّح باختلاف الأخبار في المقدار، فروي: مئة ألف، وروى: مع كل واحد من السبعين ‌ألفا ‌سبعون ‌ألفا، وغير ذلك."

(فيض القدير، (4/ 92)، ط/ المكتبة التجارية الكبرى)

مذکورہ بالا تشریح سے یہ بات واضح ہوئی  کہ  صحابہ کرام  اور  اولیاء  اللہ  کے  علاوہ دیگر مسلمان جو ان صفات کے حامل ہوں،  وہ بھی ان خوش قسمت لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144308101129

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں