ہمارا عمرے کا کام شروع کرنے کا ارادہ ہے جس کی تفصیلات یہ ہیں:
۱- ایک تو مروجہ طریقہ ہے کہ لوگ ہم سے پیکج معلوم کریں گے اور ہم ان سے رقم وصول کریں اور ان کو بھیج دیں گے۔
۲- دوسرا طریقہ یہ ہوگا کہ ہم لوگوں کی آسانی کے لیے ان کی ماہانہ قسطیں بنا لیں گے، پھر ایک مخصوص رقم وہ لوگ ایک مخصوص وقت تک جمع کرائیں گے، پھر جب ان کی مطلوبہ رقم جمع ہوجائے گی تو ہم ان کو اس وقت کے پیکج بتائیں گے، پھر اگر ان کی جمع کی گئی رقم پیکج سے زیادہ ہوگی تو ان کو اضافی رقم واپس کردی جائے گی، اور اگر جمع کی گئی رقم کم ہوگی تو وہ باقی رقم جمع کرائیں گے، اور یہ رقم جو جمع کی جارہی ہے کمپنی کے پاس بطور قرض کے ہوگی، اس قرضہ کے بدلہ میں کمپنی ان کو کسی قسم کا نفع نہیں دے گی۔
۳- کمپنی کی ایک پالیسی ہوگی جو کہ تمام کسٹمرز کےلیے ہوگی، جو لوگ کیش پر گئے ہوں یا ماہانہ رقم جمع کرکے گئے ہوں، ان تمام کو ملا کر جب سو (۱۰۰) لوگ چلے جائیں گے تو پھر کمپنی ایک قرعہ اندازی کرے گی جس میں پانچ لوگوں کا نام نکلے گا، پھر ان پانچ لوگوں کو فری میں عمرے کا پیکج دیا جائے گا، اب وہ گھر میں سے کسی کو بھی بھیج سکتے ہیں یہ ایک عام کمپنی کی پالیسی ہوگی جو سو لوگوں میں سے صرف ۵ لوگ فائدہ اٹھا سکیں گے۔
براہ مہر بانی شرعی نقطہ نظر سے راہ نمائی فرمادیں کیا یہ طریقہ کار درست ہے؟
صورتِ مسئولہ میں (جو دوسرا طریقہ ہے) اگر کمپنی اپنے کسٹمرز سے بطور قرض کچھ نہ کچھ رقم وصول کرتی ہے ، او ر اس قرضہ کے بدلے میں انہیں کوئی نفع بھی نہیں دیتی، اس غرض سے کہ ان کے لیے عمرہ کا ٹکٹ خرید نے میں آسانی ہوجائے، اس طرح کا معاملہ کرنا شرعًا جائز ہے۔
مذکورہ عبارت میں جو تیسری بات ہے: قرعہ اندازی کرکے پانچ لوگوں کو فری میں ٹکٹ دینا اس میں کوئی حرج نہیں بشرط یہ کہ اس قرعہ اندازی میں شرکت کے لیے ان سو لوگوں سے قرعہ اندازی میں شریک ہونے کے لیے کسی قسم کی کوئی اضافی رقم نہ لی جائے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وعلى هذا يخرج الشراء بالدين ممن عليه الدين شيئا بعينه أو بغير عينه قبضه أو لم يقبضه، وجملة الكلام فيه أن الدين لا يخلو من أن يكون دراهم أو دنانير أو فلوسا أو مكيلا أو موزونا أو قيمة المستهلك، فإن كان دراهم أو دنانير فاشترى به شيئا بعينه جاز الشراء، وقبض المشترى ليس بشرط؛ لأنه يكون افتراقا عن عين بدين، وأنه جائز فيما لا يتضمن ربا النساء."
(بدائع الصنائع: كتاب البيوع، ج:7 ص:221، ط: دار الكتب العلمية)
البحر الرائق میں ہے:
"قال رحمه الله: (وحرم شرط الجعل من الجانبين لا من أحد الجانبين) لما روى ابن عمر رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم سبق بالخيل وراهن. ومعنى شرط الجعل من الجانبين أن يقول إن سبق فرسك فلك علي كذا، وإن سبق فرسي فلي عليك كذا وهو قمار فلا يجوز لان القمار من القمر الذي يزاد تارة وينقص أخرى وسمي القمار قمارا لان كل واحد من القمارين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه ويجوز أن يستفيد مال صاحبه فيجوز الازدياد والنقصان في كل واحد منهما فصار ذلك قمارا."
(البحر الرائق: كتاب الخنثى، ج:9 ص:360، ط: دار الكتب العلمية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144512100460
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن