میں عمرہ کرنا چاہتا ہوں، میرا سوال يہ ہے کہ میرے پاؤں کے انگوٹھے پر شوگر کا زخم ہے، پانی لگنے کی وجہ سے زخم خراب ہونا شروع ہو جاتا ہے ، اور زیادہ ننگے پاؤں چل بھی نہیں سکتا ، کیا میں موزے پہن کر عمرہ ادا کرسکتا ہوں؟ یا پھر شوز پہن کر ؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں !
واضح رہے كہ حالتِ احرام میں محرم مردکے لیے ايسی چپل پہننا جائز نہیں ہے جو پاؤں كے اوپر والے حصے کی ابھری ہوئی ہڈی کو ڈھانپ لے، اسی طرح محرم مرد کے لیے موزے پہننابھی جائز نہیں، البتہ اگر موزے عذر کی وجہ سے پہنےتو جائز ہوگا ،اور عذر کی وجہ سے پہننے کی وجہ سے گناہ گار بھی نہیں ہوگا۔
سائل اگر موزےپورے دن یا پوری رات پہنے رکھے گا تواسی صورت میں سائل پر اس کا فدیہ لازم ہوگا اور فدیے میں تین چیزوں میں سے کسی ایک چیز کا اختیار ہوگا: سائل یا تو حدود حرم میں ایک بکری ذبح کروادےیا چھ مسکینوں میں سے ہر ایک مسکین کو صدقۃ الفطر کے برابر نصف صاع گندم یا اس کی قیمت صدقہ کر دے،یعنی پونےدو سیر گندم یا اس کی قیمت دے دے یا تین روزے رکھے خواہ ایک ساتھ رکھے یا متفرق طور پر رکھے۔
اسی طرح مذکورہ موزے اگر ایک دن یا ایک رات سے کم وقت تک پہنے رکھے تو بھی صدقہ لازم ہوگا،ایک گھنٹہ سے کم پہننے پر ایک دو مٹھی گندم یا اس کی قیمت صدقہ کرنا ہوگا اور اگر ایک گھنٹہ یا اس سے زیادہ پہننےرکھا تو صدقہ الفطر کے برابرصدقہ کرنا واجب ہوگا۔
اور صدقہ حدود حرم اور خارج حرم کسی بھی جگہ کیا جاسکتا ہے۔
اگر سائل کا پاؤں میں ایسا زخم ہو کہ اس میں پانی لگنے کی وجہ سے زخم خراب ہونا شروع ہو جاتا ہے ،تو اس حالت میں سائل اس زخم پرمسح کر سکتاہے ۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"{فمن كان منكم مريضا أو به أذى من رأسه ففدية من صيام أو صدقة أو نسك} [البقرة: 196] ولا ضرورة في حال العمد فعلم أن ذكر التخيير فيه؛ لتقدير الحكم به في حال الضرورة لولاه لما ذكر التخيير فكان إيجاب الجزاء في حال العمد إيجابا في حال الخطأ."
(كتاب الحج، فصل بيان حكم ما يحرم علي المحرم، ج: 2 ص: 202 ط: دار الكتب العلمية)
غنیۃ الناسک میں ہے:
"ولو لبس الخفيں قبل القطع يوما فعليه دم، و في اقل من يوم صدقة، و كذا الجوربين، قال الشارح : و لم ار من صرح فيمن لبس خفا واحدا، والظاهر ان يكون الحكم متحدا اذا لم يكن مجلس لبسهما متعددا، وان لبسهما بعد القطع اسفل من موضع الشراك، فلا شيئ عليه، و لو وجد نعلين بعد قطعهما يجوز له الاستدامة علي ذلك."
(باب الجنایات، مطلب فی لبس الخفین، ص: 254 ط: ادارۃ القران والعلوم الاسلامی)
معلم الحجاج میں ہے:
" ایسا جوتا پہننابھی منع ہے جس میں بیچ کی ہڈی چھپ جائے"۔۔
"ممنوعات احرام اگر چہ عذر کی حالت میں کئےجائیں تب بھی جزاواجب ہوتی ہے۔"
(ممنوعات احرام-جنایات، ص: 104-207ط: گاباسنز)
مبسوط سرخسی میں ہے :
"وهو نظير ما ورد به الأثر فيما لم يجد المحرم نعلين قطع خفيه أسفل من الكعبين ليصير في معنى النعلين وفسر هشام عن محمد - رحمهما الله تعالى - الكعب في هذا الموضع بالمفصل الذي في وسط القدم عند معقد الشراك."
(كتاب المناسك، باب ما يلبسه المحرم من الثياب، ج: 4 ص: 127 ط: دار المعرفة)
بدائع الصنائع میں ہے :
"وهذا الذي ذكرنا من وجوب غسل الرجلين إذا كانتا باديتين لا عذر بهما، فأما إذا كانتا مستورتين بالخف، أو كان بهما عذر من كسر، أو جرح، أو قرح، فوظيفتهما المسح."
(کتاب الطھارۃ، فصل المسح علی الخفین، ج: 1 ص: 7 ط: دار الکتب العلمیۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144510101664
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن