میں نے دبئی میں 27 مئی کو مشین سے سر کے بال چھوٹے کئے ،پھر مئی 28 کو سعودی پہنچا، اور یہاں پر عمرہ کرنے کے بعد پھر مشین سے مزید چھوٹے کئے،پھر دوبارہ تین جون کو اور پانچ جون کو عمرہ کیا، اور اس میں بھی دونوں عمروں میں مشین سے مزید اور چھوٹے کئے،یعنی کل تین عمرے کئے ،اور تینوں میں مشین سے چھوٹے کئے،کسی بھی عمرہ میں بلیڈ نہیں لگایا، تو کیا اس صورت میں میرے اوپر کوئی دم واجب ہے، اور اگر ہے تو پھر کیا پہلے عمرے کا ہوگا اور دوسرے کا اور تیسرے کا بھی؟ یا پھر صرف دوسرے یا تیسرے کا؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
بصورتِ مسئولہ چوں کہ پہلا عمرہ کرنے سے پہلے آپ نے بالوں میں مشین لگواکر بال چھوٹے کرلیے تھے ،اور عمرے کے وقت آپ کے بال اگر انگلی کے پورے سے چھوٹے تھے تو اس کے لیے استرے سے (کم از کم چوتھائی) سر منڈوانا لازم تھا، قصر کروانا جائز نہیں تھا.اس لئے اب دم دینا لازم ہے، اور چوں کہ تین عمروں میں اسی طرح کیا ہے تو تین دم لازم ہوں گے، اس لیے کہ ہر عمرہ الگ عبادت ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"وإذا جاء وقت الحلق ولم يكن على رأسه شعر بأن حلق قبل ذلك أو بسبب آخر ذكر في الأصل أنه يجري الموسى على رأسه؛ لأنه لو كان على رأسه شعر كان المأخوذ عليه إجراء الموسى، وإزالة الشعر فما عجز عنه سقط وما لم يعجز عنه يلزمه، ثم اختلف المشايخ في إجراء الموسى أنه واجب أو مستحب، والأصح أنه واجب، هكذا في المحيط".
(كتاب الحج، الباب الرابع فیما یفعله المحرم بعد الإحرام،ج:1، ص:231، ط:رشیدیه)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما التقصير فالتقدير فيه بالأنملة؛ لما روينا من حديث عمر - رضي الله عنه -، لكن أصحابنا قالوا: يجب أن يزيد في التقصير على قدر الأنملة؛ لأن الواجب هذا القدر من أطراف جميع الشعر، وأطراف جميع الشعر لايتساوى طولها عادةً بل تتفاوت فلو قصر قدر الأنملة لايصير مستوفياً قدر الأنملة من جميع الشعر بل من بعضه، فوجب أن يزيد عليه حتى يستيقن باستيفاء قدر الواجب فيخرج عن العهدة بيقين".
(فصل مقدار واجب الحلق والتقصير، ج:2، ص:141 ط: سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"(أو حلق في حل بحج) في أيام النحر، فلو بعدها فدمان (أو عمرة) لاختصاص الحلق بالحرم.
(قوله: أو حلق في حل بحج أو عمرة) أي يجب دم لو حلق للحج أو العمرة في الحل لتوقته بالمكان، وهذا عندهما خلافاً للثاني (قوله: في أيام النحر) متعلق بحلق بقيد كونه للحج، ولذا قدمه على قوله: أو عمرة فيتقيد حلق الحاج بالزمان أيضاً، وخالف فيه محمد، وخالف أبو يوسف فيهما، وهذا الخلاف في التضمين بالدم لا في التحلل فإنه يحصل بالحلق في أي زمان أو مكان فتح. وأما حلق العمرة فلايتوقت بالزمان إجماعاً، هداية، وكلام الدرر يوهم أن قوله: في أيام النحر قيد للحج والعمرة، وعزاه إلى الزيلعي مع أنه لا إيهام في كلام الزيلعي كما يعلم بمراجعته (قوله: فدمان) دم للمكان ودم للزمان ط (قوله: لاختصاص الحلق) أي لهما بالحرم وللحج في أيام النحر ط".
(باب الجنایات، ج:2، ص:554 ط: سعید)
البحر الرائق ميں هے:
’’وقید التداخل بکونه من جنس واحد لأنه لو قلم أظافیر یده وحلق ربع رأسه وطیب عضواً فإنه یلزمه لکل جنایة دم، سواء اتحد المجلس أو اختلف اتفاقاً‘‘.
(كتاب الحج، باب الجنايات فی الحج، ج:3، ص:13، ط:دار الكتاب الاسلامي)
المحیط البرهاني ميں هے:
"ولو اختلف الأفعال حقیقةً بأن جامع، وتطیب ولبس المخیط ألیس أنه یلزمه لکل فعل دم".
(كتاب المناسك، فصل فيما يحرم على المحرم، ج:2، ص:452، ط:دار الكتب العلمية)
الهدایة مىں هے:
"وإن قص أظافیر یدیه ورجلیه فعلیه دم؛ لأنه من المحظورات… ولایزاد علی دم إن حصل في مجلس واحد؛ لأن الجنایة من نوع واحد، فإن کان في مجالس فکذلك عند محمد؛ لأن مبناها علی التداخل، فأشبه کفارة الفطر إلا إذا تخللت الکفارة لارتفاع الأولی بالتکفیر، وعلی قول أبي حنیفة وأبي یوسف یجب أربعة دماء إن قلم في کل مجلس یداً أو رجلاً لأن الغالب فیه معنی العبادة فیتقید التداخل باتحاد المجلس کمافي آي السجدة".
(باب الجنايات،ج:1، ص:159، ط:دار احياءالتراث العربي)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144511102767
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن