کیا جو بندہ انگریزی تعلیم حاصل کررہا ہو تو وہ دین اسلام کی رو سے جاہل ہے ،کل مجھے ایک بندے نے کہا کہ" آپ جاہل ہو" اور اس نے وجہ یہ پیش کی کہ آپ نے درس نظامی کا کورس نہیں کیا ہوا ہے، حالانکہ میں ابھی گیارھویں کلاس کے پیپر دے رہا ہوں، اس کے ساتھ میں قرآن مجید کا حافظ بھی ہوں اور ایک عالم سے بہشتی زیور بھی پڑھ رہا ہوں، اس نے یہ بھی کہا کہ اگر حافظ بھی ہو تو معنی تو آپ نہیں جانتے ہیں، کیا عصری تعلیم علم نہیں ہے؟
شرعاً قرآن وسنت اور ان سے متعلق علوم حاصل کرنے والے کو عالم کہا جاتا ہے، اور موجودہ زمانے میں یہ علوم دینی مدارس میں پڑھے اور پڑھائے جاتے ہیں،اس لیے مستند اساتذہ سے ہی ان علوم پڑھنے والے کو عرفاً عالم دین کہا جاتا ہے، البتہ اسکول ،کالجز،یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے چوں کہ دیگر عصری علوم اور فنون کے حصول میں مشغول ہیں اور ان میں مہارت رکھتے ہیں، اس لیے انہیں مطلقاً جاہل کہنابھی درست نہیں۔ الغرض مذکورہ شخص کا سائل کو اس بنا پر جاہل کہنا درست نہیں ہے۔ تاہم سائل کے حافظِ قرآن ہونے اور بہشتی زیور پڑھ لینے سے اس پر عالم کا اطلاق بھی نہیں ہوگا۔
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"وعن أنس - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «طلب العلم فريضة على كل مسلم،قال الشراح: المراد بالعلم ما لا مندوحة للعبد من تعلمه كمعرفة الصانع والعلم بوحدانيته ونبوة رسوله وكيفية الصلاة، فإن تعلمه فرض عين، وأما بلوغ رتبة الاجتهاد والفتيا ففرض كفاية."
(کتاب العلم،ج:1،ص:301،ط:دار الفکر)
فتح الباری میں ہے:
"قوله يرفع الله الذين آمنوا منكم والذين أوتوا العلم درجات قيل في تفسيرها يرفع الله المؤمن العالم على المؤمن غير العالم ورفعة الدرجات تدل على الفضل إذ المراد به كثرة الثواب وبها ترتفع الدرجات ورفعتها تشمل المعنوية في الدنيا بعلو المنزلة وحسن الصيت والحسية في الآخرة بعلو المنزلة في الجنة وفي صحيح مسلم عن نافع بن عبد الحارث الخزاعي وكان عامل عمر على مكة أنه لقيه بعسفان فقال له من استخلفت فقال استخلفت بن أبزى مولى لنا فقال عمر استخلفت مولى قال إنه قارئ لكتاب الله عالم بالفرائض فقال عمر أما إن نبيكم قد قال إن الله يرفع بهذا الكتاب أقواما ويضع به آخرين وعن زيد بن أسلم في قوله تعالى نرفع درجات من نشاء قال بالعلم قوله وقوله عز وجل رب زدني علما واضح الدلالة في فضل العلم لأن الله تعالى لم يأمر نبيه صلى الله عليه وسلم بطلب الازدياد من شيء إلا من العلم والمراد بالعلم العلم الشرعي الذي يفيد معرفة ما يجب على المكلف من أمر دينه في عباداته ومعاملاته والعلم بالله وصفاته وما يجب له من القيام بأمره وتنزيهه عن النقائص ومدار ذلك على التفسير والحديث والفقه."
(ج: 1، ص: 141، ط: المکتبہ السلفیۃ)
تفسیر رازی میں ہے:
"ادع إلى سبيل ربك بالحكمة معناه ادع الأقوياء الكاملين إلى الدين الحق بالحكمة، وهي البراهين القطعية اليقينية وعوام الخلق بالموعظة الحسنة، وهي الدلائل اليقينية الإقناعية الظنية، والتكلم مع المشاغبين بالجدل على الطريق الأحسن الأكمل."
(سورۃ النحل،آیت نمبر:125،ج:20،ص:287،ط:دار احیاء التراث)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511102291
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن