1:كيا عورتيں مسجد ميں اعتكاف كرسكتي هيں؟
2: اعتكاف ميں كسي كو پڑھانا یا خود پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
3: اعتکاف میں چہرہ اور آواز کا پردہ ہوتا ہے یا نہیں؟
4: ایک ساتھ دو عورتیں ایک کمرے میں اعتکاف کرسکتی ہیں؟
1: عورتوں کے لیے مسجد میں اعتکاف کرنا مکروہِ تحریمی ہے، ان کے لیے اعتکاف کی جگہ وہ ہے جسے گھر میں نماز، ذکر، تلاوت اور دیگر عبادت کے لیے خاص اور متعین کرلیا گیا ہو، اور عورتوں کے لیے یہ خاص جگہ ایسی ہے جیسے مردوں کے لیے مسجد ، اگر گھر میں عبادت کے لیے پہلے سے خاص جگہ متعین نہیں ہے تو اعتکاف کے لیے گھر کے کسی کونے یا خاص حصے میں چادر یا بستر وغیرہ ڈال کر ایک جگہ مختص کرلے، پھر اس جگہ اعتکاف کرے، اور وہ جگہ عورت کے حق میں مسجد کے حکم میں ہوگی، اعتکاف کی حالت میں طبعی اور شرعی ضرورت کے بغیر وہاں سے باہر نکلنا درست نہیں ہوگا۔
2:خواتين كے ليے اعتكاف كي حالت میں کسی کو(دینی علم) پڑھانا یا پڑھنا جائز ہے، البتہ اعتکاف کا مقصد چوں کہ اللہ کے ساتھ یکسو ہوکر راز ونیاز کرنا اور تمام دنیاوی مشاغل سے کنارہ کش ہوکر صرف اسی کی عبادت میں مشغول ہونا ہے، لہذا بہتر یہی ہے کہ اعتکاف کے دنوں میں انفرادی عبادت کی طرف زیادہ توجہ دی جائے اور تعلیمی مشاغل بھی ترک کردئیے جائیں، اور اگر وہ تعلیم دینی نہ ہو بلکہ دنیاوی ہو تو بدرجہ اولیٰ اس سے احتراز کرنا چاہیے۔
3: اعتکاف اور غیر اعتکاف میں اس کا حکم یکساں ہے، عورتوں کے لیے نامحرم مردوں کے سامنے چہرہ کھلا رکھنا منع ہے، چہرہ کا پردہ ضروری ہے، محرم مرد یا خواتین کے سامنے چہرہ کھلا رکھنا جائز ہے، جب کہ عورت کے لیے ضرورت کے وقت نامحرم سے بات کرنا جائز ہے، اس کی آواز ستر میں داخل نہیں ، البتہ ضرورت کے بغیر محض خوش گپیاں لگانا یا آواز کو اچھا اور خوبصورت کرکے نامحرموں کے سامنے بات چیت کرنا منع ہے۔
4: ایک اعتکاف کی جگہ میں دو عورتیں بیٹھ سکتی ہیں،ا س میں کوئی مضائقہ نہیں۔
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"(قال): ولا تعتكف المرأة إلا في مسجد بيتها، وقال الشافعي - رحمه الله تعالى -: لا اعتكاف إلا في مسجد جماعة، الرجال والنساء فيه سواء، قال: لأن مسجد البيت ليس له حكم المسجد ؛ بدليل جواز بيعه، والنوم فيه للجنب والحائض، وهذا؛ لأن المقصود تعظيم البقعة، فيختص ببقعة معظمه شرعاً، وذلك لا يوجد في مساجد البيوت.
(ولنا) أن موضع أداء الاعتكاف في حقها الموضع الذي تكون صلاتها فيه أفضل، كما في حق الرجال، وصلاتها في مسجد بيتها أفضل فإن النبي صلى الله عليه وسلم لما «سئل عن أفضل صلاة المرأة؟ فقال: في أشد مكان من بيتها ظلمة»۔ وفي الحديث: أن «النبي صلى الله عليه وسلم لما أراد الاعتكاف أمر بقبة فضربت في المسجد، فلما دخل المسجد رأى قباباً مضروبة، فقال: لمن هذه؟ فقيل: لعائشة وحفصة، فغضب وقال: آلبر يردن بهن؟ وفي رواية: يردن بهذا، وأمر بقبته فنقضت، فلم يعتكف في ذلك العشر»۔ فإذا كره لهن الاعتكاف في المسجد مع أنهن كن يخرجن إلى الجماعة في ذلك الوقت؛ فلأن يمنعن في زماننا أولى، وقد روى الحسن عن أبي حنيفة رحمهما الله تعالى أنها إذا اعتكفت في مسجد الجماعة جاز ذلك، واعتكافها في مسجد بيتها أفضل، وهذا هو الصحيح؛ لأن مسجد الجماعة يدخله كل أحد، وهي طول النهار لا تقدر أن تكون مستترةً، ويخاف عليها الفتنة من الفسقة، فالمنع لهذا، وهو ليس لمعنى راجع إلى عين الاعتكاف، فلا يمنع جواز الاعتكاف، وإذا اعتكفت في مسجد بيتها، فتلك البقعة في حقها كمسجد الجماعة في حق الرجل، لا تخرج منها إلا لحاجة الإنسان، فإذا حاضت خرجت ولا يلزمها به الاستقبال إذا كان اعتكافها شهراً أو أكثر، ولكنها تصل قضاء أيام الحيض لحين طهرها، وقد بينا هذا في الصوم المتتابع في حقها. ومسجد بيتها الموضع الذي تصلي فيه الصلوات الخمس من بيتها."
(كتاب الصوم، باب الإعتكاف، 3/ 119، ط: دارالمعرفة، بيروت)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ويكره كل عمل من عمل الدنيا في المسجد، ولو جلس المعلم في المسجد والوراق يكتب، فإن كان المعلم يعلم للحسبة والوراق يكتب لنفسه فلا بأس به؛ لأنه قربة، وإن كان بالأجرة يكره إلا أن يقع لهما الضرورة، كذا في محيط السرخسي."
(كتاب الكراهية، الباب الخامس فى آداب المسجد، 5/ 321، ط: مكتبه رشيديه)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144609102248
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن