مصنوعی پلکیں (جو انسانی بال سے نہ ہو) لگانا چند گھنٹوں کے لیے جائز ہے؟ اور یہ بھی بتا دیجیے کہ نقلی ناخن لگانا جائز ہے یا نہیں جو نماز پڑھتے وقت اتارے بھی جا سکتے ہو؟
واضح رہے کہ خواتین کے لیے جائز حدود میں رہ کر شوہر کی خاطر زینت اختیا کرنا پسندیدہ ہے، اور غیر محرموں کو دکھانے یا دیگر خواتین کے سامنے فخر و مباہات کی غرض سے زینت اختیار کرنا جائز نہیں ہے، اس کے علاوہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے دیگر ضرورت اور خوشی کے موقعوں میں پر زیب وزینت کرنا منع نہیں ہے۔
لہذا عورتوں کے لیے زینت کی خاطر (انسان اور خنزیر کے بالوں کے علاوہ کی ) مصنوعی پلکیں لگانا جائز ہے، بشرط یہ کہ ان مصنوعی پلکوں سے کسی محض دکھلاوا، یا دھوکا دینا یا خلافِ حقیقت صورت کا اظہار مقصود نہ ہو، البتہ وضو کے لیے پلکیں اور ناخن نکال کر وضو کرنا ضروری ہوگا۔ ناخن کے حوالے سے شریعت میں بڑھانے کا حکم نہیں ہے، بلکہ تراشنے کا حکم دیا ہے، اس لیے مصنوعی ناخن لگانا قباحت سے خالی نہیں ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 372):
"ووصل الشعر بشعر الآدمي حرام سواء كان شعرها أو شعر غيرها؛ لقوله صلى الله عليه وسلم : «لعن الله الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة والواشرة والمستوشرة والنامصة والمتنمصة». النامصة: التي تنتف الشعر من الوجه. والمتنمصة: التي يفعل بها ذلك.(قوله: سواء كان شعرها أو شعر غيرها)؛ لما فيه من التزوير كما يظهر مما يأتي، وفي شعر غيرها انتفاع بجزء الآدمي أيضاً، لكن في التتارخانية: وإذا وصلت المرأة شعر غيرها بشعرها فهو مكروه، وإنما الرخصة في غير شعر بني آدم تتخذه المرأة لتزيد في قرونها، وهو مروي عن أبي يوسف، وفي الخانية: ولا بأس للمرأة أن تجعل في قرونها وذوائبها شيئاً من الوبر (قوله: «لعن الله الواصلة» إلخ) الواصلة: التي تصل الشعر بشعر الغير والتي يوصل شعرها بشعر آخر زوراً ".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144203201100
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن