بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت اپناذاتی مال شوہرکےاجازت کےبغیربھی استعمال کرسکتی ہے


سوال

 میں سافٹ وئیر انجینیئر ہوں اور گھر سے ہی آن لائن کام کرتی ہوں ،میرے شوہر کارز کی سیل پرچیز (خریدوفروخت)کا کام کرتے تھے ،لیکن کچھ عرصہ سے ان کے پاس انویسٹمنٹ نہیں ہے تو اب وہ کوئی کام نہیں کر رہے، لیکن میں ان کو کہتی ہوں کہ جب تک انویسٹمنٹ نہیں ہے آپ تب تک کوئی نوکری ڈھونڈ لیں، لیکن وہ کہتے ہیں میں کسی کی نوکری نہیں کر سکتا، جب میرے پاس انویسٹمنٹ آئے گی تو میں اپنا ہی کام کروں گا ،اب اس وجہ سے مجھے اپنی ساری تنخواہ اپنے گھر کے اخراجات میں اور اپنے شوہر کے اخراجات پہ خرچ کرنا پڑتی ہے، اب اس بات کو لے کے ہماری اکثر بحث ہو جاتی ہے اور گھر کا نظام خراب ہوتا ہے، تو میری اس بارے میں رہنمائی کر دیں، کیا میرا ان کو نوکری کے لیے بار بار کہنا غلط ہے؟ اور اگر میں صحیح ہوں تو پھر میرے شوہر کو اس معاملے میں کیا کرنا چاہیے کہ وہ ان کے پاس انویسٹمنٹ نہیں ہے اور وہ نوکری بھی نہیں کرنا چاہتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ کیونکہ تم میری اجازت سے نوکری کر رہی ہو تو تمہارا خرچ کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے کیونکہ اگر میں تمہیں اجازت نہ دوں تو تم نوکری بھی نہیں کر سکتی ہو تو اس معاملے میں میں ایموشنلی بہت زیادہ ڈسٹرب ہو جاتی ہوں ان کی یہ باتیں سن کر ،اور کیا میں اپنی تنخواہ کا کچھ حصہ ان کو بتائے بغیر خرچ کر سکتی ہوں ؟

جواب

واضح رہےکہ شریعت ِمطہرہ نےبیوی کانان نفقہ شوہرکےذمہ لگایاہے،چاہےبیوی مالدارہویاغریب ،ہرصورت میں شوہربیوی کانان نفقہ پوراکرےگا،ہاں!اگرشوہرفقیرہوتواس پراس کےحساب سےلازم ہےاورمالدارپراس کےحساب سےلازم ہے۔لہٰذااس مذکورہ تفصیل کی روسے:

1:بیوی کاشوہرکوکام کاکہناتاکہ وہ معروف طریقہ سےبیوی کاخرچہ برداشت کرسکے جائزہے۔

2: البتہ سائلہ کےآن لائن کام کی وجہ سےاگرشوہرکےخدمت میں کوتاہی واقع ہوتی ہو،توشوہراس کوذاتی کام سےمنع کرسکتاہے۔

3: سائلہ کااپنا ذاتی مال شوہر کی اجازت اورعلم میں لائےہوئےبغیراستعمال کرناجائزہے۔

شرح مختصر الطحاوی للجصاص:

"مسألة: [‌نفقة ‌الزوجة]قال أبو جعفر: (على الزوج ‌نفقة زوجته، وكسوتها بالمعروف".والأصل فيه قول الله تعالى: {الرجال قوامون على النساء بما فضل الله بعضهم على بعض وبما أنفقوا من أموالهم}.وقال تعالى: {وعلى المولود له رزقهن وكسوتهن بالمعروف}.وقال النبي صلى الله عليه وسلم في خطبته المشهورة: "لهن عليكم رزقهن وكسوتهن بالمعروف".وعلى ذلك اتفاق أهل العلم.قال: (على الموسر قدره وعلى المقتر قدره) متاعًا بالمعروف."

(‌‌باب النفقة على الأقارب والزوجات والمطلقات،ج:5،ص:280،ط: دار البشائر الإسلامية - ودار السراج)

المبسوط للسرخسی:

"(قال:) ولا يجبر المعسر على ‌نفقة أحد، إلا على ‌نفقة ‌الزوجة والولد الصغير، أما استحقاق ‌نفقة ‌الزوجة باعتبار العقد وأما الأولاد الصغار فلأنهم أجزاؤه فكما لا تسقط عنه ‌نفقة نفسه لعسرته، فكذلك ‌نفقة أولاده والأصل فيه قوله تعالى {ومن قدر عليه رزقه فلينفق مما آتاه الله}."

(باب نفقة ذوي الارحام،ج:5،ص:224،ط:دار المعرفة - بيروت، لبنان)

الاصل للامام محمدبن الحسن:

"فإن كانت زوجة وأولاد إناث أو ذكورة صغار أنفق عليهم من ماله بالمعروف. وإن استوثق منهم بكفيل فحسن. وإن ضمنهم ذلك ولم يأخذ منهم كفيلا فهو مستقيم. أي ذلك ما فعل فحسن. وإن كان ورثته كبارا ليس بهم زمانة ولا فيهم امرأة أو كانوا إخوة أو بني عم لم ينفق عليهم من ماله شيئا. إنما ينفق على الولد الإناث والذكورة من الصغار والزوجة والأبوين إذا كانوا محتاجين. فأما من كان منهم غنيا فلا ‌نفقة له، ما خلا ‌الزوجة فإنه ينفق عليها وإن كانت غنية."

(كتاب المفقود ومايصنع به،ج:9،ص:353،ط:دارابن حزم)

فتاوی شامی:

"وفي حاشية الخير الرملي على البحر: له منعها من إرضاعه وتربيته؛ لما في التتارخانية أن للزوج منعها عما يوجب خللا في حقه. وما فيها عن السغناقي ولأنها في الإرضاع والسهر ينقص جمالها وجمالها حقه فله منعها تأمل."

(مطلب في مسكن الزوجة،ج:3،ص:600،ط:دارالفكر،بيروت)

المبسوط للسرخسی:

"والحاصل أن من تصرف ‌في خالص ملكه لم يمنع منه ‌في الحكم، وإن كان يؤدي إلى إلحاق الضرر بالغير.(ألا ترى) أن من اتجر ‌في حانوته نوع تجارة لم يمنع من ذلك، وإن كانت تكسد بسببه تجارة وأن أصحاب الحوانيت يتأذون بغبار سنابك الدواب المارة وأن يتأذى المارة بدخان نيرانهم التي يوقدونها ‌في حوانيتهم، ثم ليس للبعض منع البعض من ذلك وللإنسان أن يسقي أرضه وليس لجاره أن يمنعه من ذلك مخافة أن يقل ماء بئره فعرفنا أن المالك مطلق التصرف فيما هو خالص حقه."

(كتاب القسمة،ج:15،ص:21،ط:دارالمعرفة،)

فقط والله تعالى اعلم


فتوی نمبر : 144509101540

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں