اگر فصل پر 40 ہزار خرچ ہوا اور کل پیداوار ایک لاکھ کی ہوئی تو جو 40 ہزار خرچ ہوا تھا وہ نکال کر باقی 60 ہزار کا عشر دینا ہے؟ یا کل پیداوار یعنی ایک لاکھ کا؟ اور دوسرا یہ کہ کسان پر کوئی قرض وغیرہ پہلے سے موجود ہے وہ قرض ادا کر کے باقی رقم کا عشر ادا کرے گا؟
واضح رہے کہ وہ اخراجات جو زمین کو کاشت کے قابل بنانے سے لےکر پیداوار حاصل ہونے اور اس کو سنبھالنے تک ہوتے ہیں، یعنی وہ اخراجات جو زراعت کے امور میں سے ہوتے ہیں، مثلاً زمین کو ہم وار کرنے، ٹریکٹر چلانے، مزدور کی اجرت وغیرہ۔ یہ اخراجات عشر ادا کرنے سے پہلے منہا نہیں کیے جائیں گے، بلکہ عشر یا نصفِ عشر اخراجات نکالنے سے پہلے پوری پیداوار سے ادا کیا جائے گا۔
البتہ پیداوار کی کٹائی کے بعد وہ اخراجات جو زراعت (کھیتی باڑی) کے امور میں سے نہیں ہوتے ، جیسے پیداوار کو منڈی تک پہنچانے کا کرایہ، اسی طرح پیکنگ، لوڈنگ وغیرہ کے جو اخراجات آئیں تو ایسے اخراجات عشر ادا کرنے سے پہلے منہا کیے جاسکتے۔
لہذا صورت ِ مسئولہ میں اخراجات کی نوعیت دیکھ کر مذکورہ حکم کے مطابق عشر ادا کریں ،نیز اگر کسان پر کوئی قرض وغیرہ ہو تو وہ عشر کے حساب سے منہا نہیں کیا جائے گا ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"ويجب العشر عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - في كل ما تخرجه الأرض من الحنطة والشعير والدخن والأرز، وأصناف الحبوب والبقول والرياحين والأوراد والرطاب وقصب السكر والذريرة والبطيخ والقثاء والخيار والباذنجان والعصفر، وأشباه ذلك مما له ثمرة باقية أو غير باقية قل أو كثر هكذا في فتاوى قاضي خان سواء يسقى بماء السماء أو سيحا يقع في الوسق أو لا يقع هكذا في شرح الطحاوي."
(کتاب الزکات،الباب السادس فی زکات الزرع والثمار،ج:1،ص:186،دارالفکر)
وفيها أيضا:
"ولا تحسب أجرة العمال ونفقة البقر، وكري الأنهار، وأجرة الحافظ وغير ذلك فيجب إخراج الواجب من جميع ما أخرجته الأرض عشرا أو نصفا كذا في البحر الرائق."
(کتاب الزکات،الباب السادس فی زکات الزرع والثمار ،ج:1،ص:187،دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609101876
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن