میں مسجد میں حفظ کی کلاس کا استاد ہوں، میرا گھر مسجد کے سامنے ہے، جس میں پانی کی کمی ہے، مسجد والوں کی طرف سے پانی لے جانے کی اجازت ہے، لیکن پائپ کے ذریعہ نہیں، بلکہ بالٹی سے لے جانے کی اجازت ہے، اب میں طلبہ کے ذریعہ بالٹی میں پانی گھر پہنچواتا ہوں، جس میں عموماً آدھا گھنٹہ لگ جاتا ہے، کیا طلبہ کے اس وقت خرچ میں مجھ پر کوئی گناہ تو نہیں ہو گا؟
مسجد کے ذمہ دار سے بات بھی ہوئی کہ طلبہ کا وقت خرچ ہوتا ہے، پائپ کی اجازت دی جائے، لیکن وہ اجازت نہیں دیتے، اس وجہ سے بالٹیوں میں پانی لے جانا پڑتا ہے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کو گھر پانی پہنچانے کے لیے طلبہ کی خدمت کی ضرورت ہے، تو اس کے لیے ایسے طلبہ کا انتخاب کر لیا جائے ،جو پانی اٹھانے کے متحمل ہوں، زیادہ چھوٹے بچوں سے یہ کام ہرگز نہ لیں، ایسے وقت کا انتخاب کریں، جس میں ان کی پڑھائی کا حرج نہ ہو، اور ایک وقت میں اتنا زیادہ پانی نہ اٹھوایا کریں، جس سے طلبہ بوجھ محسوس کرنے لگیں، یا تھک جائیں، نیز مذکورہ خدمت کے عوض اپنی حیثیت کے مطابق کبھی نا کبھی انعام بھی دے دیا کریں۔
اگر ان شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے آپ بچوں سے خدمت لی جائے، تو اس کی گنجائش ہوگی۔
صحیح البخاری میں ہے:
"عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم دخل الخلاء، فوضعت له وضوءا، قال: من وضع هذا؟ فأخبر، فقال: اللهم فقهه في الدين."
ترجمہ: "ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت الخلاء میں داخل ہوئےتو میں نے وضو کے لیے پانی پیش کیا۔ آپ نے پوچھا: یہ کس نے رکھا؟ جب بتایا گیا تو آپ نے دعا کی: اے اللہ! اسے دین کی سمجھ عطا فرما۔"
(کتاب الوضوء ، باب وضع الماء عند الخلاء ، جلد : 1، صفحه : 41 ، طبع : السلطانية)
فتاویٰ محمودیہ میں ہے:
"ان کی تربیت کے لئے اور سلیقہ سکھانے کے لئے پانی منگانا اور اس پانی سے وضو کرنا اور اس وضو سے نماز پڑھنا پڑھانا سب درست ہے۔ حضرت انس ؓ سے وقتاً فوقتاً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کام لیتے اور وہ اس وقت نابالغ تھے ... لیکن بچوں پر زیادہ بوجھ ڈالنا نہیں چاہئے، جس سے وہ اکتاکر پریشان ہوجائیں۔ خاص کر یہ صورت کہ وہ پنکھا جھلتے رہیں، اور استاذ آرام سے سوتے رہیں۔ اس سے غالب گمان یہ ہے کہ وہ اکتا جاتے ہوں گے۔ اگر استاذ ان سے خدمت لیں، تو ان کو انعام بھی دینا چاہیے، جس سے وہ خوش ہو جائیں۔ اور ان کی علمی اور اخلاقی تربیت بھی کی جائے، ان کو ہنر بھی سکھایا جائے کہ یہ ان کا حق ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم"
(باب الاشتات بعد کتاب الحظر والاباحۃ ، جلد : 20 ، صفحہ : 116 ، طبع : فاروقیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100522
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن