1:میرا بیٹا ایک سال کا تھا،میرے پانچ بچے تھے، میں نے منصوبہ بندی والا وقفہ کیا،کیونکہ شوہر کے کام بروقت نہ کرنے کی وجہ سے سختی تھی، اور بچوں میں ایک سال کا تقریبًا وقفہ ہوتا تھا،تنگ ہونے کی وجہ سے یہ عمل کیا، اب میری 46 سال عمر ہے، اس علاج کو 22 سال ہو گئے ،جبکہ اب دو سال سے میری طبیعت ایسی ہے کہ پٹھوں کی مریض ہوں، نماز کے سجدے سے بھی ڈاکٹر نے منع کیا ہے، ایک بوتل پانی بھی نہیں اٹھا سکتی،پھٹوں کی ہڈی کندھوں میں گھس جانے سے اور کچھ فیملی ٹینشن سے طبیعت کی حالت ایسی ہو گئی، تو وقفہ ختم نہیں کیا،اب مزید بچوں کی پیدائش نہیں کر سکتی ،تو کیا پچھلے گناہ ہے یا کفارہ ہے مجھ پر ؟یا اب گناہ طبیعت کی وجہ سے نہیں ہے؟ یا طبیعت کی خرابی کی وجہ سے اب گنجائش ہے ؟
نوٹ:مسلسل پانچ بچوں کے بعد وقفہ کروایا،کیونکہ پہلے بچے کی پیدائش سے ہی تکلیف تھی اور شوہر کے کام زیادہ تھے جس کو بروقت کرنا ضروری تھا .
2: ایک بچی کے والد ذہنی مریض ہیں کچھ حد تک، بچی کی والدہ کے طلاق کے بعد دادا والوں نے کفالت نہیں کی،ماں نے ہی پرورش کی مگر دادا بہت سخت ہیں، دھمکیاں دیتے ہیں، اور اپنے نواسوں کے لیے رشتہ چاہتے ہیں پوتی کے لیے ،جوکہ انتہائی نامناسب ہے، اس رشتے سے ماں پریشان ہوتی ہے کہ بچی پہلے ہی اتنی اذیت و تنہائی میں ہے ،باپ دادا کی توجہ نہیں تھی نہ ہی دیکھ بھال پر خرچہ کیا اب ماں نے بچی کا نکاح ایک ماموں اور 15 سالہ بھائی جو کہ عاقل ہے، اس کی موجودگی میں کیا،تو کیا وہ ہو گیا ؟مجبوری کی وجہ سے تایا، دادا کو نہ بتایا، ہنگامے کا خطرہ تھا بچی خود بھی ڈرتی ہے، دادا بہت سخت مزاج مشہور ہیں، تو کیا نکاح ہو گیا یا نہیں؟ بچی کی والدہ پریشان ہیں، واضح فرمائیں، عید کے بعد رخصتی ہے، پورے ننھیال کی شرکت بھی ہوگی اور یہ بات یقینی ہے، انتہائی مجبوری اور خوف کی وجہ سے یہ بات چھپائی دادا والوں سے؟
نوٹ:بچی عاقلہ بالغہ ہے۔
1:نکاح اسلامی تعلیمات میں خاص اہمیت رکھتا ہے، اور نکاح کے اہم مقاصد میں سے جائز طریقے سے اولاد کا حصول ہے، اورایسے عمل سے شریعت میں منع کیا گیا ہے، جس سے اولاد کے حصول کا سلسلہ منقطع ہو،مثلاً:ایسی صورت اختیار کرنا جس سے دائمی طو رپر قوتِ تولید یا پیدائشِ اولاد کی صلاحیت ہی ختم ہوجائے،شرعاً بالکلیہ ناجائز اور حرام ہے،یاکسی غرضِ فاسد کی وجہ سے مانع حمل طریقہ اختیار کرنا، مثلاً رزق کی تنگی کے خوف سے کہ اگر زیادہ اولاد ہوئی تو ان کو کہاں سے کھلائیں گے؟ ان کا خرچہ کون برداشت کرے گا؟ وغیرہ وغیرہ یہ سب شریعت سے متصادم خیالات ہیں۔ اگر ایسی کسی وجہ سے مانعِ حمل طریقہ اختیار کیاگیا تو اس کی گنجائش نہیں، اسی طرح اگرکسی عذر کے بغیرایسا طریقہ اختیار کیا جس سے عارضی طور پر حمل نہ ٹھہرے، ایسا کرنا مکروہ تنزیہی ہےالبتہ اگر میاں بیوی کو کوئی عذر لاحق ہو یا عورت کی صحت یا بچوں کی تربیت پیش نظر ہو وغیرہ تو اس طرح کے اعذار کی وجہ سے عارضی وقفہ کرنا جائز ہے، پھر اس میں کوئی کراہت نہیں۔
لہٰذاصورتِ مسئولہ میں اگر سائلہ نے شوہر کی جانب سے سختی اور کسی معقول عذرکی وجہ سےوقفہ کیا تھاتو ایسا کرنے کی گنجائش تھی۔
رہی بات موجودہ صورتحال میں جب سائلہ پٹھوں کی مریض ہے،نیز 46 سال عمر ہوناجس کی وجہ سےمزید بچوں کی پیدائش کے قابل نہ ہونایہ سب شرعی اعذارہیں، ایسی صورت میں سائلہ کےلئےعارضی وقفہ کےسلسلےکوباقی رکھنے کی گنجائش ہے۔
آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
"تزوجوا الودود الولود فانی مکاثر بکم الأمم."
’’ ترجمه: ایسی عورتوں سے شادی کرو جو زیادہ محبت کرنے والی ہو، زیادہ بچے جننے والی ہو؛کیوں کہ (کل بروزقیامت) میں دیگر امتوں کے مقابلے میں اپنی امت کی کثرت کے سبب فخر کروں گا۔
(سنن ابي داؤد، أول كتاب النكاح، باب في تزويج الأبكار، رقم الحديث:2050، ج3، ص:395، ط:دار الرسالة العالمية)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه كالشعر والظفر ونحوهما لا يجوز وإن كان غير مستبين الخلق يجوز وأما في زماننا يجوز على كل حال وعليه الفتوى كذا في جواهر الأخلاطي.
وفي اليتيمة سألت علي بن أحمد عن إسقاط الولد قبل أن يصور فقال أما في الحرة فلا يجوز قولا واحدا وأما في الأمة فقد اختلفوا فيه والصحيح هو المنع كذا في التتارخانية.
(كتاب الكراهية، الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات، ج:5، ص:356 ط:دار الفكر)
2:مسلمان مردوعورت کانکاح صحیح ہونے کے لیے مجلسِ نکاح میں گواہی کے لیے دو مسلمان عاقل بالغ مردوں یا ایک مسلمان مرد اور دو مسلمان عورتوں کا موجود ہوناضروری ہے۔لہٰذاصورتِ مسئولہ میں اگر واقعتاً عاقلہ بالغہ بچی کادوشرعی گواہوں (ماموں اورپندرہ سالہ عاقل بھائی) کی موجودگی میں اس کی رضامندی سےنکاح کیاگیا ، تو یہ نکاح درست ہے۔
الدرالمختارمیں ہے:
(و) شرط (حضور) شاهدين(حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا)على الاصح (فاهمين) أنه نكاح على المذهب.بحر (مسلمين لنكاح مسلمة ولو فاسقين أو محدودين في قذف أو أعميين أو ابني الزوجين أو ابني أحدهماوإن لم يثبت النكاح بهما) بالاثنين (إن ادعى القريب، كما صح نكاح مسلم ذمية عند ذميين) ولو مخالفين لدينها (وإن لم يثبت) النكاح (بهما مع إنكاره) والاصل عندنا أن كل من ملك قبول النكاح بولاية نفسه انعقد بحضرته.
(كتاب النكاح، ج:3، ص:21، ط:سعيد)
وفيه ايضاّ:
فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا(وله) أي للولي (إذا كان عصبة) ولو غير محرم كابن عم في الأصح خانية، وخرج ذوو الأرحام والأم والقاضي (الاعتراض في غير الكفء)
(کتاب النکاح،باب الولی،ج:3،ص:56،ط:سعید)
بدائع الصنائع میں ہے:
فالنكاح الذي الكفاءة فيه شرط لزومه هو إنكاح المرأة نفسها من غير رضا الأولياء لا يلزم حتى لو زوجت نفسها من غير كفء من غير رضا الأولياء لا يلزم.
(کتاب النکاح، فصل إنكاح المرأة نفسها من غير رضا الأولياء، ج:2، ص:317، ط:سعید)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144609100566
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن