الحمد اللہ اس بار بھی مجھے حج کی سعادت نصیب ہوئی ،اس بار سعودی حکومت نے ہر روڈ بند کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے نزدیک کا راستہ بھی بہت دور ہو جاتا تھا،اس بار میں اور میرے شوہر نے ایک بار ہمارے بیٹے اور بہو کو اپنی طرف سے رمی کرنے کے لیے بھیجا۔
کیا یہ درست عمل ہے یا دم واجب ہوگیا؟
رمی میں نیابت کے سلسلہ میں اصول یہ ہے کہ جوشخص رمی کرنے پر قادرنہ ہو،وہ دوسرے کونائب بناسکتاہے،قادرنہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ اتنابیماروکمزورہوکہ اگرجمرات تک اسے پہنچادیاجائے توکنکری پھینکنے کی طاقت نہ ہو،اس کامعیاریہ ہے کہ اس کے لیے نمازیں بیٹھ کر پڑھنا جائز ہو،یا اتنا معذورتونہ ہو، لیکن جمرات تک پیدل چلنے کی طاقت نہ ہو،اورسواری میسرنہ ہو ؛ لہذا اگران دوکیفیتوں میں سے کوئی ایک ہوتب توکوئی دم واجب نہیں بصورتِ دیگردم واجب گا۔
غنیۃ الناسک میں ہے:
"السادس: أن یرمي بنفسه، فلا تجوز النیابة فیه عند القدرة. و الرجل و المرأة في الرمي سواء، إلا أن رمیها في اللیل أفضل، فلاتجوز النیابة عن المرأة بغیر عذر. وتجوز عند العذر، فلو رمی عن مریض بأمره أو مغمی علیه و لو بغیر أمره أو صبي أو معتوه أو مجنون جاز. والأولی أن یرمي السبعة أولاً عن نفسه، ثم عن غیره. و لو رمی بحصاتین إحداهما عن نفسه والأخری من غیره جاز، ویکره."
(فصل في شرائط الرمي، ص:300،ط:دارابن حزم )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512101688
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن