بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

عذرکی وجہ سے کسی اور سے رمی کروانا


سوال

الحمد اللہ اس بار بھی مجھے حج کی سعادت نصیب ہوئی ،اس بار سعودی حکومت نے ہر روڈ بند کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے نزدیک کا راستہ بھی بہت دور ہو جاتا تھا،اس بار میں اور میرے شوہر نے ایک بار ہمارے بیٹے اور بہو کو اپنی طرف سے رمی کرنے کے  لیے بھیجا۔

کیا یہ درست عمل ہے یا دم واجب ہوگیا؟

جواب

رمی میں نیابت کے سلسلہ میں اصول یہ ہے کہ جوشخص رمی کرنے پر قادرنہ ہو،وہ دوسرے کونائب بناسکتاہے،قادرنہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ اتنابیماروکمزورہوکہ اگرجمرات تک اسے پہنچادیاجائے توکنکری  پھینکنے کی طاقت نہ ہو،اس کامعیاریہ ہے کہ اس کے  لیے نمازیں بیٹھ کر پڑھنا جائز ہو،یا اتنا معذورتونہ ہو، لیکن جمرات تک پیدل چلنے کی طاقت نہ ہو،اورسواری میسرنہ ہو ؛ لہذا اگران دوکیفیتوں میں سے کوئی ایک ہوتب توکوئی دم واجب نہیں بصورتِ  دیگردم واجب گا۔

غنیۃ الناسک میں ہے:

"السادس: أن یرمي بنفسه، فلا تجوز النیابة فیه عند القدرة. و الرجل و المرأة في الرمي سواء، إلا أن رمیها في اللیل أفضل، فلاتجوز النیابة عن المرأة بغیر عذر. وتجوز عند العذر، فلو رمی عن مریض بأمره أو مغمی علیه و لو بغیر أمره أو صبي أو معتوه أو مجنون جاز. والأولی أن یرمي السبعة أولاً عن نفسه، ثم عن غیره. و لو رمی بحصاتین إحداهما عن نفسه والأخری من غیره جاز، ویکره."

(فصل في شرائط الرمي، ص:300،ط:دارابن حزم )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512101688

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں