بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ویکسین کارڈ میں دوکاندار کا نام غلط اندراج کرنا، صحیح کرنے پر دوبارہ اجرت کامطالبہ کرنےکا حکم


سوال

ایک بندہ ویکسین کارڈ بنوانے دکاندار کے پاس گیا اوراس کوکارڈ بنانے کے  لیے مطلوبہ معلومات ایک پرچی پر   لکھ کردے دیں،(جس میں نام ،شناختی کارڈ نمبر،اورتاریخ اجراء درج تھے جو سوالنامہ کے ساتھ  منسلک ہے) پرچی پربندےنے    سعدیہ نام لکھاتھا،لیکن دکاندارنے سعدیہ کے بجائے سمرہ  کارڈ میں درج کردیاتھا  وہ بندہ  کارڈ لیاتو پتہ چلاکہ کارڈ میں نام غلط ہے، تو اس نے دکاندار   سے کہا کہ  آپ نے نام غلط لکھاہے، میں نے پرچی پرجونام  لکھاتھاوہ  نہیں ہے، البتہ جب وہ بندہ  پرچی دے رہاتھاتواس وقت  دکاندارنے پوچھاکہ سمرہ نام ہے،تو بندے نے بولاکہ پرچی پرجولکھاہے وہی ہے (اورپرچی میں سعدیہ لکھاتھا جب کہ دکاندار نےکارڈ میں  سمرہ درج کیا تھا)الغرض جب بندےنے دوبارہ کارڈ صحیح بنانے کامطالبہ کیاتو دکاندار نے کہاکہ دوبارہ کارڈ بنانے کےلیے دوبارہ فیس جمع کرناپڑے گا۔اب دریافت یہ کرناہے کہ اگر مذکورہ دکاندار دوبارہ  صحیح کارڈ بناکردے گا،توکیادوبارہ اجرت کامستحق ہوگا،اگروہ دوبارہ بھی فیس لے چکاہے تو کیااس کےلئے دوبارہ فیس کی رقم لے کراستعمال کرناجائز ہوگایانہیں ؟اگرکارڈ بنوانے والے نے مجبوراً دوبارہ فیس جمع کیاہو اس پرطیب نفس نہ ہو؟ شرعی رہنمائی فرماکرعند اللہ  ماجورہوں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل نے دکاندار کو منسلکہ پرچی دی تھی، جس پر سعدیہ نام درج تھا( جیسا کہ پرچی سے واضح ہے) اور دکاندار نےکارڈ میں   سعدیہ کے بجائے   سمرہ نام درج کیا تھا، تو ایسی صورت میں  دکاندار اجرت کا اس وقت تک مستحق نہیں ہوگا جب تک کہ وہ سعدیہ کے نام کا  کا رڈ  بناکر نہ دے، اور اگر دکاندار ایک دفعہ اجرت لے چکاہے، تو دوبارہ صحیح کا رڈ بنانے پر فیس(اجرت) کا مطالبہ نہیں کرسکتا، کیوں کہ وہ پہلے اجرت وصول کرچکاہے، اور اگروہ  دوبارہ بھی  فیس (اجرت) لے چکا ہے، تو وہ واپس کرنا  ضروری ہے۔

درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"لو أعطى أحد حكاك الأختام ختمًا لينقش عليه اسمه فنقش عليه عمدًا أو خطأً اسم غيره فيكون ذلك الرجل مخيرًا فإن شاء ضمن الأجير قيمة الختم و إن شاء أخذه منقوشًا على تلك الصورة بأجر مثل عمل الأجير على ألا يتجاوز الأجر المسمى.

إذا أعطى أحد نقاشًا لوحًا لينقش عليه عبارة ونقش النقاش على اللوح عبارة أخرى فالمستأجر مخير إن شاء ضمنه قيمة اللوح وإن شاء أخذه على تلك الصورة بأجر المثل لعمل الأجير هذا على ألا يتجاوز الأجر المسمى."

(الفصل الثالت فی ضمان الاجیر/ج:1/ص:706/ط:دار الجیل)

وفيه أيضًا:

"(المادة 611) الأجير المشترك يضمن الضرر والخسائر التي تولدت عن فعله ووصفه إن كان بتعديه وتقصيره أو لم يكن. يضمن الأجير المشترك الخسائر المتولدة من فعله إن لم يكن تجاوز المعتاد يعني أن الأجير المشترك ضامن للخسارة التي تتولد عن فعله سواء أكان متعديا أو لم يكن وسواء تجاوز المعتاد أو لم يتجاوز؛ لأن ما يدخل تحت عقد الإجارة هو العمل السليم. وأما العمل الفاسد فلا يدخل تحت الإجارة. وبناء عليه يكون الأجير المشترك بهذه الصورة فعل شيئا غير داخل تحت الإجارة وليس مأذونا بعمله بحكم الإجارة. والمستأجر والحالة هذه مخير. إن شاء ضمنه قيمته بحاله وهو غير معمول وإعطاء أجرته؛ لأن الأجير لم يف منفعة بل أورث ضررًا."

(الأجير المشترك يضمن الضرر والخسائر/ج:1/ص:713/ط:دار الجیل)

وفيه أيضًا:

"إذا ادعى الأجير المشترك أنه ردّ المستأجر فيه إلى المستأجر أو أنه تلف في يده بلا تعد و لا تقصير أو فقد منه أو سرق يصدق عند الإمام بناء على المادة (1774) .وعند الإمامين لا يصدق ويجب عليه أن يثبت ما ادعاه بالبينة وقد جاء في الشلبي (وعنده القول قول صاحب الثوب؛ لأن الثوب دخل في ضمانه عندهما ولا يصدق على الرد إلا ببينة) . مثلا لو طلب أحد من الخياط الثوب الذي أعطاه إليه ليمنحه وادعى الخياط أنه أعطاه إياه فعند الإمام. يصدق قوله بلا بينة أما عند الإمامين فلايصدق قوله بلا برهان." (البزازية، والأنقروي، الفتاوى وابن نجيم)

(الفصل الثالت فی ضمان الاجیر/ج:1/ص:704/ط:دار الجیل)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144303100042

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں