بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ولیمہ کے مسنون وقت کی تحقیق


سوال

کیا رخصتی والے دن ولیمہ کرنا جائز ہے یا اگلے دن کرنا چاہیے ؟

جواب

واضح رہے کہ  " ولیمہ مسنونہ" کا اعلیٰ اور افضل درجہ یہ ہے کہ شبِ زفاف اور صحبت   کے بعد ہو، اور دوسرا درجہ یہ ہے کہ  شبِ زفاف کے بعد اور صحبت سے پہلے ہو،  یہ دونوں مسنون ولیمہ شمار ہوں گے،  اور اس کے علاوہ  نفس نکاح  کے بعد، یا رخصتی کے بعد اور شبِ زفاف سے پہلے جو ولیمہ ہو وہ " ولیمہ مسنونہ" تو نہیں ہوگا، البتہ اس سے نفسِ ولیمہ کی سنت ادا ہوجائے گی، گو مسنون وقت کی سنت ادا نہیں ہوگی، اور جو دعوت/ ضیافت عقدِ نکاح سے ہی پہلے کی جائے وہ ولیمہ ہی نہیں ہوگا، بلکہ عام دعوت ہوگی۔نیز  شبِ زفاف  کے تیسرے دن تک حدیث شریف سے ولیمہ کا ثبوت ہے، اگر شبِ زفاف کے بعد پہلے دن انتظام ہوسکتا ہو تو سب سے بہتر پہلا دن ہے، تیسرے دن کے بعد ولیمہ کرنا فقط ضیافت شمار ہوگی۔

اگر مہمان زیادہ ہوں، یا کسی مقام کا عرف ایک ہی دفعہ ولیمہ منعقد  کرکے مہمانوں کو بلانے کے بجائے  یہ ہو  کہ یکے بعد دیگرے مہمان آتے ہوں اور کھا کر چلے جاتے ہوں تو مستقلاً تین دن تک بھی ولیمہ کا کھانا کھلایا جاسکتا ہے،  حضورِ اقدس ﷺ نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح میں اسی طرح تین دنوں تک ولیمہ فرمایا ہے، الغرض ولیمہ ایک دن میں کر دیا جائے یا عرف کے مطابق مسلسل تین دنوں تک دونوں درست ہیں، لیکن مسلسل تین دن تک کھانا کھلانے میں یہ شرط ملحوظ رہے کہ اس میں دکھلاوا یا اسراف نہ ہو، بلکہ حسبِ استطاعت سنت کے اتباع کی نیت سے اس معاملے کو انجام دیا جائے۔ ایک حدیث میں ہے ' پہلے دن ولیمہ حق ہے، دوسرے دن نیکی ہے، اور  (مسلسل) تیسرے دن سناوا اور دکھلاواہے'۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"و عن أنس قال: أولم رسول الله صلى الله عليه و سلم حين بنى بزينب بنت جحش فأشبع الناس خبزاً و لحماً. رواه البخاري".

 (كتاب النكاح،الفصل الاول، باب الولیمة، 278/2،ط: قدیمی)

وفیہ ایضا: 

" قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «طعام أول يوم حق وطعام يوم الثاني سنة وطعام يوم الثالث ‌سمعة ومن سمع سمع الله به» . رواه الترمذي".

(‌‌كتاب النكاح،‌‌باب الوليمة،الفصل الثاني،٩٦٢/٢،ط : المكتب الإسلامي)

         فیض الباری میں ہے:

"السنة في الولیمة أن تکون بعد  البناء، و طعام ماقبل البناء لایقال له: "ولیمة عربیة". 

( باب الولیمة حق،534، ط: دار الکتب العلمیة)

    عمدة القاري میں ہے:

"وقد اختلف السلف في وقتها: هل هو عند العقد أو عقيبة؟ أو عند الدخول أو عقيبه؟ أو موسع من ابتداء العقد إلى انتهاء الدخول؟ على أقوال. قال النووي: اختلفوا، فقال عياض: إن الأصح عند المالكية استحبابه بعد الدخول، وعن جماعة منهم: أنها عند العقد، وعند ابن حبيب: عند العقد وبعد الدخول، وقال في موضع آخر: يجوز قبل الدخول وبعده، وقال الماوردي: عند الدخول، وحديث أنس: فأصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم عروساً بزينب فدعي القوم، صريح أنها بعد الدخولوَاسْتحبَّ بعض الْمَالِكِيَّة أَن تكون عِنْد الْبناء وَيَقَع الدُّخُول عقيبها، وَعَلِيهِ عمل النَّاس".

(باب الصفرۃ المتزوج، 112/14،ط: امدادیة ملتان) 

       اعلاء السنن میں ہے:

"والمنقول من فعل النبي صلی الله علیه وسلم أنها بعد الدخول، کأنه یشیر إلی قصة زینب  بنت جحش، وقد ترجم علیه البیهقي بعد الدخول، وحدیث أنس  في هذا الباب صریح في أنها  الولیمة بعد الدخول".

 (باب استحباب الولیمۃ، 12/11،ط: ادارۃ القرآن) 

بذل المجہود میں ہے:

"یجوز أن یؤلم بعد النکاح، أو بعد الرخصة، أو بعد أن یبني بها، والثالث هو الأولی".

(کتاب الأطعمة، باب في استحباب الولیمة للنکاح،۱۱/ ۴۷۱، دارالبشائر الإسلامیة) 

عمدۃ القاری میں ہے: 

"وفيه فوائد: ... الثالثة: اتخاذ الوليمة في العرس، قال ابن العربي: بعد الدخول، وقال البيهقي: كان دخوله صلى الله عليه وسلم بعد هذه الوليمة".

 (باب الوليمة،151/20 ،ط: ملتان)

البنایۃ شرح الہدایۃ میں ہے:

"ولو بنى الرجل بامرأته ينبغي أن يولم، والوليمة حسنة، ويدعو الجيران والأصدقاء، ويصنع لهم طعامًا ويذبح لهم، ولا بأس أن يكون ليلة العرس دف يضرب به يشتهر ذلك ويعلن به النكاح، وينبغي للرجل أن يجيب، وإن لم يفعل فهو آثم، وإن كان صائمًا أجاب ودعا، وإن كان غير صائم أكل، ولا بأس يدعو يومئذ ومن الغد وبعد الغد ثم انقطع العرس".

‌‌[كتاب الكراهية،يدعى إلى الوليمة والطعام فيجد ثمة اللعب والغناء،89/12،ط : دار الكتب العلمية]

امداد الاحکام میں ہے:

’’ ولیمہ مشہور قول میں تو اسی دعوت کا نام ہے جو شبِ زفاف ودخول کے بعد ہو. اور بعض اقوال سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نکاح کے وقت سے دخول کے بعد تک جو بھی دعوت ہو ولیمہ ہی ہے، مگر راجح قول اوّل ہے؛ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ سے  ولیمہ بعد الدخول ہی ثابت ہے‘‘۔

(كتاب الحظر والاباحة،291/4،ط : رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505101336

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں