بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ویڈیو کال کے ذریعہ نکاح کا حکم


سوال

میرا نکاح ویڈیو کال پر ہوا تھا، جس میں گواہ میرے گھر تھے اور لڑکا سعوی عرب میں تھا،لڑکے نے ویڈیو کال پر قبول کیا،کیا یہ نکاح منعقد ہوا یا نہیں؟ راہ نمائی فرما دیں۔

جواب

واضح رہے کہ شریعت نے نکاح کے انعقاد کے لیے ایک ضابطہ رکھا ہے، اور وہ ضابطہ یہ ہے کہ شرعاً نکاح کے صحیح ہونے کے لیے ایجاب و قبول کی مجلس ایک ہو اور اس میں جانبین میں سے دونوں کا بنفسِ نفیس یاان کے وکیل کا موجود ہونا شرط اورضروری ہے، نیز مجلسِ نکاح میں دو گواہوں کا ایک ساتھ موجود ہونا اور دونوں گواہوں کا اسی مجلس میں نکاح کے ایجاب و قبول کے الفاظ کا سننا بھی شرط ہے۔ اور اگر جانبین میں سے کوئی ایک مجلس نکاح میں موجود نہ ہو تو اس صورت میں اپنا وکیل مقرر کرے ، پھر یہ وکیل اپنے مؤکل کی طرف سے اس کا نام مع ولدیت لے کر مجلس نکاح میں ایجاب وقبول کریں، تو نکاح منعقد ہوجائے گا۔

موجودہ دور میں ویڈیو کالنگ کے ذریعے نکاح کے انعقاد کی جو صورت اختیار کی جاتی ہے اس میں مجلس کی شرط مفقود ہوتی ہے؛ کیوں کہ شرعاً نہ تو یہ صورت حقیقۃً مجلس کے حکم میں ہے اور نہ ہی حکماً، کیوں کہ وہ ایک مجلس ہی نہیں ہوتی، بلکہ فریقین دو مختلف جگہوں پر ہوتے ہیں، جب کہ ایجاب و قبول کے لیے عاقدین کی مجلس ایک ہونا ضروری ہے۔ لہذا ویڈیو کالنگ کے ذریعے نکاح منعقد کرنا درست نہیں ہے۔

ویڈیو کال کے ذریعہ ایجاب و قبول کرنے سے شرعاً نکاح منعقد نہیں ہوتا۔ البتہ اگر کال پر کسی شخص کو ایجاب یا قبول کا وکیل بنا دیا جائے اور وہ وکیل اس کی طرف سے دوسری مجلس میں ایجاب یا قبول کرلے اور ایجاب و قبول اور گواہان سب ایک ہی مجلس میں ہوں تو ایسی صورت میں نکاح جائز ہو گا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ومن شرائط الإیجاب والقبول: اتحاد المجلس لوحاضرین...

(قوله: اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ینعقد، فلو أوجب أحدهما فقام الآخر أو اشتغل بعمل آخر، بطل الإیجاب؛ لأن شرط الارتباط اتحاد الزمان، فجعل المجلس جامعاً تیسیراً".

(کتاب النکاح،ج:3،ص14،ط:سعيد)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد، حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد، وكذا إذا كان أحدهما غائباً لم ينعقد، حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان، وهو غائب فبلغه الخبر، فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانةً وهي غائبة، فبلغها الخبر، فقالت: زوجت نفسي منه، لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين، وهذا قول أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى. ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً، فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب جاز؛ لاتحاد المجلس من حيث المعنى، وإن لم يسمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب لا يجوز عندهما".

(كتاب النكاح، الباب الأول في تفسير النكاح شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه،ج:1،ص:269،ط:رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100094

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں