بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ویڈیو کال پر نکاح


سوال

کیا ویڈیو کال پر نکاح ہو سکتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ویڈیو کال پر نکاح منعقد نہیں ہوتا، کیوں کہ نکاح کے منعقد ہونے کے لیے ضروری ہے کہ فریقین یعنی لڑکا اور لڑکی کی طرف سے یا ان کے وکیل کی طرف سے ایجاب و قبول ایک مجلس میں ہو اور اسی مجلس میں دو گواہ بھی ہوں جو ان دونوں کے ایجاب و قبول کو سنیں۔ ویڈیو کال پر نکاح میں لڑکا اور لڑکی ایک مجلس میں نہیں ہوتے، لہذا ایسا نکاح منعقد نہیں ہوتا۔

البتہ اگر لڑکا یا لڑکی میں سے کوئی ایک کسی ایسے شخص کو اپنے نکاح کا وکیل بنا دے جو دوسرے فریق کے پاس موجود ہو اور یہ وکیل گواہوں کی موجودگی میں ایک ہی مجلس میں اپنی موکل کی طرف سے ایجاب یا قبول کر لے تو نکاح منعقد ہو جائے گا۔

نیز ویڈیو کال میں جاندار کی تصویر دیکھنا اور دکھانا جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب ضروری ہے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"(وأما شروطه)... (ومنها) سماع كل من العاقدين كلام صاحبه هكذا في فتاوى قاضي خان... (ومنها) الشهادة قال عامة العلماء: إنها شرط جواز النكاح هكذا في البدائع... (ومنها) سماع الشاهدين كلامهما معا هكذا في فتح القدير... (ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد وكذا إذا كان أحدهما غائبا لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانة وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين وهذا قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى - ولو أرسل إليها رسولا أو كتب إليها بذلك كتابا فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب؛ جاز لاتحاد المجلس من حيث المعنى وإن لم يسمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب لا يجوز عندهما".

(كتاب النكاح، الباب الأول في تفسير النكاح شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه، 1/ 269-267، ط: رشيدية)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"ولو قالت بين يدي الشهود: زوجت نفسي منه لا ينعقد النكاح أيضا؛ لأن سماع الشهود كلام المتعاقدين شرط لجواز النكاح، وإنما سمعوا كلامها هنا لا كلامه، لو كانت حين بلغها الكتاب قرأته على الشهود وقالت: إن فلانا كتب إلي يخطبني فاشهدوا أني قد زوجت نفسي منه فهذا صحيح؛ لأنهم سمعوا كلام الخاطب بإسماعها إياهم إما بقراءة الكتاب أو العبارة عنه وسمعوا كلامهما حيث أوجبت العقد بين أيديهم فلهذا تم النكاح، وهذا بخلاف البيع فإن المكتوب إليه إذا قال: هناك بعت هذه العين من فلان بكذا جاز، وإن لم يكن بحضرة الشهود أو كان بحضرتهم ولم يقرأ الكتاب عليهم؛ لأن البيع يصح بغير شهود كما في الحاضر".

(كتاب النكاح، باب الوكالة في النكاح، 5/ 16، ط: دار المعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609100778

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں