بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ویڈیو کال کا شرعی حکم


سوال

ویڈیو کال کا کیا حکم ہے ؟اور اگر پتہ ہو کہ سامنے والا اسکرین شاٹ نہیں لے رہا تو کیا ویڈیو کال کر سکتے ہیں؟خاص طور پر اگر کسی کے رشتے دار ملک یا شہر سے باہر رہتے ہوں۔

جواب

واضح رہے کہ ویڈیو کال  تصویر ہی کے حکم میں ہے، کیوں کہ اس میں انتہائی سرعت کے ساتھ  بہت ساری تصویروں کو  محفوظ کر کے آگے بھیجنے کا عمل مستقل جاری رہتا ہے، جس کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ سامنے والا براہِ  راست نظر آرہا ہے، جب کہ اس کی اصل بھی ریکارڈ شدہ ویڈیو اور تصویر کی ہی ہے، اور جاندار کی  تصویر کشی اور ویڈیو شرعاً حرام اور ناجائز ہے، اس لیے ویڈیو کال جس میں جاندار کی تصویر ہو وہ بھی شرعاً ناجائز ہے،اور جاندار کشی پر احادیثِ مبارکہ میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں،لہٰذا ويڈيو كال سے احتراز کرنا چاہیےاگرچہ اس بات کا یقین ہو کہ سامنے والا اسکرین شاٹ نہیں لے رہا،اور جن حضرات کے رشتےدار گھر سے دور ہوں   ان کےلیے بھی یہی حکم ہے کہ وہ بھی  ویڈیو کال  سے بچیں۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن مسلم قال: كنا مع مسروق في دار يسار بن نمير، فرأى في صفته تماثيل، فقال: سمعت عبد الله قال:سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: (إن أشد الناس عذابا عند الله يوم القيامة المصورون).

عن نافع: أن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما أخبره: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (إن الذين يصنعون هذه الصور يعذبون يوم القيامة، يقال لهم: أحيوا ما خلقتم."

 (صحيح البخاري: كتاب اللباس، باب عذاب المصورين يوم القيامة،ج:5،ص:2220،رقم الحدیث:5606/5607،ط: دار ابن كثير دمشق)

البحر الرائق میں ہے:

"‌وظاهر ‌كلام ‌النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصويره صورة الحيوان وأنه قال قال أصحابنا وغيرهم من العلماء تصوير صور الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث يعني مثل ما في الصحيحين عنه صلى الله عليه وسلم «أشد الناس عذابا يوم القيامة المصورون يقال لهم أحيوا ما خلقتم» ثم قال وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره فصنعته حرام على كل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم ودينار وفلس وإناء وحائط وغيرها اهـ.

فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل لتواتره."

(کتاب الصلاۃ،باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها،ج:2،ص:29،ط:دار الکتاب الإسلامی القاهرة  مصر)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144510100133

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں