بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1446ھ 16 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

وتر میں دعائے قنوت بھول جائے تو کیا کرے؟


سوال

 اگر امام وتر کی نماز میں دعائے قنوت بھول کر رکوع کی طرف چلا گیا اور فوراکھڑا ہوکر ہاتھ کانوں کی طرف لے گیا اور پھر رکوع کیا،  لیکن جب پہلے رکوع کی طرف گیا تھا تو مقتدیوں میں سے کوئی رکوع میں نہیں گیا تھا اور امام نے آخر میں سجدہ سہو بھی نہیں کیاتوکیا حکم ہے نما ز درست ہے یا نہیں ہوئی ؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں امام بھول کر رکوع کی طرف چلا گیا اور رکوع شروع کرنے کے بعد یاد آنے پر فوراًواپس کھڑا ہو گیا ،تو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، بلکہ رکوع مکمل کرنے کے بعد آخری قعدہ میں سجدہ سہو کر لیتا تو نماز مکمل ہو جاتی،لیکن  اگر امام  رکوع سے لوٹ گیاا ور دعاء قنوت پڑھ لی تو اس سے نماز تو فاسد نہیں ہوئی ،البتہ فرض شروع کر کے چھوڑنے کی وجہ سے  سجدہ سہو لازم ہو گیا، اگر سجدہ سہو بھی نہیں کیا تو نماز کا اعادہ واجب ہے ،لہذا وقت نکلنے سے پہلے یعنی اس دن کی فجر کی نماز کا وقت داخل ہونے سے پہلے پہلے اعادہ کرنا واجب تھا ، اب جب وقت نکل گیا تو اعادہ واجب نہیں ۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان سبب الوجوب فسبب وجوبه ترك الواجب الأصلي في الصلاة، أو تغييره أو تغيير فرض منها عن محله الأصلي ساهيا؛ لأن كل ذلك يوجب نقصانا في الصلاة فيجب جبره بالسجود."

(کتاب الصلاۃ، فصل بيان سبب وجوب سجود السهو، ج:1، ص:164، ط دارالکتب العلمیہ)

فتاوی عالمگیری میں ہے :

"الإمام إذا تذكر في الركوع في الوتر أنه لم يقنت لا ينبغي أن يعود إلى القيام ومع هذا إن عاد وقنت لا ينبغي أن يعيد الركوع ومع هذا إن أعاد الركوع والقوم ما تابعوه في الركوع الأول وإنما تابعوه في الركوع الثاني أو على القلب لا تفسد صلاتهم. كذا في الخلاصة."

(کتاب الصلاۃ، الباب الثامن فی صلاۃ الوتر، ج:1، ص:111، ط دارالفکر بیروت)

فتاوی شامی میں ہے :

"(ولها واجبات) لا تفسد بتركها وتعاد وجوبا في العمد والسهو إن لم يسجد له، وإن لم يعدها يكون فاسقا آثما وكذا كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تجب إعادتها."

(کتاب الصلاۃ، واجبات الصلاۃ، ج:1، ص456، ط سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609101614

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں