بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

وعدہ خلافی کا حکم


سوال

 ایک لڑکی کے والد نے مجھ سے رابطہ کیا کہ میری بیٹی کا رشتہ آیا ہے اور اگر تم میری بیٹی سے رشتے کے لیےہاں کرو تو میں وہاں نہیں، بلکہ تمہیں اپنی بیٹی کا رشتہ دوں گا،  جس پر میں نے ان سے وقت مانگا اور اس کے اگلے دن میں نے" ہاں" کے ساتھ جواب بھییجا،  لیکن ان کے والدین نے میرے جواب سے پہلے وہاں رشتہ کر دیا ،  کیا لڑکی کا ولی شرعی حیثیت سے گناہ گار اور میرا مجرم ہے کہ نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل نے مذکورہ شخص کو جواب دینے کے لیے کوئی مخصوص، محدود وقت دیا تھا، اور انہوں نے وقت مقرّر سے پہلے ہی بیٹی کا رشتہ کہیں اور طے کرلیا، تو  اگر مذکورہ  شخص  نے کسی عذر شرعی کی وجہ سے وعدہ خلافی کی ہےتو وہ اپنے اس فعل پر ماخوذ نہیں ہے، تاہم اگر یہ فعل انہوں نے کسی عذرِ  شرعی کےبغیر کیا ہے تو وعدہ خلافی کی وجہ سے وہ اپنے اس فعل کی وجہ سے گناہ گار ہوگا،جس پر توبہ واستغفار کرنا چاہیے۔

اور اگر جواب دینے کے لیے کوئی وقت ہی مقرّر نہیں تھاتو مذکورہ شخص کا اپنی بیٹی کا رشتہ کہیں اور طے کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہے، کیوں کہ  کوئی اچھا سا رشتہ آنے پر راضی ہونا اسلامی  تعلیمات کے موافق ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن زيد بن أرقم - رضي الله عنه - عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " «إذا وعد الرجل أخاه ومن نيته أن يفي له، فلم يف ولم يجئ للميعاد، فلا إثم عليه» " رواه أبو داود، والترمذي.

(«عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا وعد الرجل أخاه ومن نيته أن يفي» ) : بفتح فكسر وأصله أن يوفي (له) أي: للرجل (فلم يف) أي: بعذر (ولم يجئ للميعاد) أي: لمانع (فلا إثم عليه) . قال الأشرف: هذا دليل على أن النية الصالحة يثاب الرجل عليها وإن لم يقترن معها المنوي وتخلف عنها. اهـ. ومفهومه أن من وعد وليس من نيته أن يفي، فعليه الإثم سواء وفى به أو لم يف، فإنه من أخلاق المنافقين، ولا تعرض فيه لمن وعد ونيته أن يفي ولم يف بغير عذر، فلا دليل لما قيل من أنه دل على أن الوفاء بالوعد ليس بواجب، إذ هو أمر مسكوت عنه على ما حررته، وسيجيء بسط الكلام على هذا المرام في آخر باب المزاح. (رواه أبو داود والترمذي)."

( كتاب الآداب، باب الوعد، ج:7، ص:3069،  ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202044

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں