تصوف کے مطابق وحدۃالوجود اور وحدۃ الشہود کی وضاحت کیا ہے؟
تصوف کی اصطلاح میں وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کا صحیح مفہوم یہ ہےکہ اللہ تعالی کا وجود کامل ہےاوراس کے مقابلے میں تمام ممکنات کا وجود اتنا ناقص ہےکہ کالعدم ہے،یعنی موجودِ حقیقی اللہ تعالی ہیں ،باقی سب برائے نام موجود ہیں۔بعض صوفیاء نے وحدۃ الوجود کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ باری تعالی کا وجود تمام موجودات میں حلول کر گیا ہے، جس کے سبب ہر موجود میں باری تعالی موجود ہے،یہ معنی باطل ہے، اور ایسا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔
نیز عام مجلسوں میں اس عقیدہ کو شائع کرنا مناسب نہیں ہے،کیوں کہ اس کے ظاہری مفہوم سے عقیدہ کی خرابی کا خدشہ ہے۔
حضرت حکیم الامت ؒ وحدۃ الوجود کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
یہاں سے ایک مسئلہ کی بنا بھی معلوم ہوتی ہے وہ مسئلہ "وحدۃ الوجود" کا ہے، اس کی حقیقت صرف یہ ہے کہ چوں کہ وجودِ کامل سوائے ذات حق کے کسی کے لئے نہیں ہے اور وجودِ کائنات نہایت ہی ضعیف اور حقیر اور مثل لاشئ کے ہے، اس لیے بجائے اس کے ثابت کرنے کے نفی کرنا ہی اولی ہے، مگر جہل کے سبب اس مسئلہ کو آج کل ایسے عنوان سے شائع کیا ہے کہ اس میں بہت سے لوگ سخت غلطی میں پڑ گئے اور جو حقیقت تھی اس کا بالکل عکس کر دیا ،یہ لوگ جاہل صوفیوں کا گروہ ہے۔
حقیقت تو یہ تھی کہ اپنے وجود کی نفی کی جاتی اور اپنے کو کچھ نہ سمجھتے ،مگر انہوں نے یہ کر دیا کہ اپنے آپ کو خدا ہی کہنے لگے ،اس بناء پر کہ خدا کے لئے بھی وجود ثابت اور ہمارے لئے بھی وجود ثابت اور وجود ہے ایک، کیوں کہ وحدۃ الوجود کے معنی ہی یہ ہیں، تو اس کی صورت کیا ہو کہ وجود ایک ہی رہے اور وہ خدا کے لئے بھی ثابت رہے اور ہمارے لئے بھی سوائے اس کے کہ ہمارا وجود اور خدا کا وجود ایک ہی ہو تو ہم اور خدا ایک ہوئے ،تو وحدت سے چل کر اتحاد کے قائل ہو گئے۔
(خطباتِ حکیم الامت،ج: 12، ص: 368، ط: ادارۃ تالیفاتِ اشرفیہ)
حضرت حکیم الامت" وحدۃ الوجود" کو تمثیلی طور پر سمجھانے کے لیے لکھتے ہیں:
"وحدۃ الوجود "اور" ہمہ اوست" ان تعبیرات مجازی کی مثال ایسی ہے کہ مثلاً کسی بڑے حاکم کے پاس ایک مظلوم پہنچا اور جا کر کسی کے ظلم کی فریاد کی ۔ حاکم کہتا ہے کہ پہلے پولیس میں رپوٹ لکھواؤ ، پھر ابتدائی عدالت میں با قاعدہ چارہ جوئی کرو، وہاں تمہارے مفید نہ ہو تو درمیانی عدالت میں جاؤ، وہاں بھی نہ ہو تو پھر ہائی کورٹ یا عدالتِ عالیہ میں رجوع کرو اور پھر جب وہاں بھی نہ ہو تو تب میرے پاس لاؤ۔ ابھی سے خلافِ ضابطہ میرے پاس کیسے آگئے؟ تو وہ کہتا ہے : حضور! میں نہیں جانتا پولیس و عدالت ، میرے تو حضور ہی پولیس ہیں اور حضور ہی عدالتِ ابتدائی اور حضور ہی عدالت انتہائی۔ اب میں پوچھتا ہوں یہ کلام صحیح ہے یا غلط؟ بالکل صحیح ہے۔ اب ایک کم فہم جاہل نے بھی وہاں دربار میں یہ کلام سنا اور یہ سمجھا کہ اچھا یہ با دشاہ صاحب تو کانسٹیبل بھی ہیں ،کوتو ال بھی ہیں، تھانے دار بھی ہیں۔ اب جو دربار میں گیا تو جاکے بادشاہ سے کہا، کانسٹیبل صاحب ! السلام علیکم ! اس پر اس کے اتنے جوتے لگیں گے کہ یاد کرے گا ،کیوں کہ یہ کلام با لکل غلط ہے۔ بس یہ فیصلہ ہے وحدۃ الوجود کا ۔ یہی حاصل ہے عارفین کے ان اشعار کامثلاً:
ہر چه بینم در جہاں غیر تو نیست یا توئی یا خوئے تویا بوئے تو
مطلب یہ ہے کہ تمام عالم آپ کی صفات کا مظہر ہے ہر چیز کو آپ سے تعلق ہے غیر کا وجود ہی نہیں بلکہ ہر جگہ آپ کا ظہور ہے۔
باقیات فتاوی رشیدیہ میں ہے:
" مسئلہ وحدت الوجود: یہ بات ثابت ہے کہ وجود حقیقی ذات پاک حق تعالیٰ ہی کے واسطے ہے، اور باقی جملہ موجودات فانیہ موجود بوجود ظلی ہیں، اور ظلی بہ نسبت حقیقی کے کالعدم ہوتا ہے، بس مطلب " ہمہ اوست " کا یہ ہوا کہ جملہ موجود حقیقی واصلی وہ ذات پاک باقی ہے اور باقی جملہ موجودات معدوم و فانی ہیں۔ یہ عین توحید ہے اور حق ہے ۔
نہ یہ مطلب ہے کہ جملہ موجودات موجودات ظلیہ کواصلیہ حقیقیہ اعتقاد کرکے سب موجودات عدمیہ، فانیہ کو ، موجود حقیقی و عین ذات حق تعالی قرار دیں، معاذاللہ! یہ سخت شرک ہے، مطلب اول و ثانی میں فرق زمین و آسمان کا ہے اول مراد عارفین ہے اور ثانی ملحدین جاہلین۔"
( باقیات فتاوی رشیدیہ، سلوک و احسان، مسئلہ وحدة الوجود کی تحقیق، ص: 423،ط: الہی بخش اکیڈمی)
فتاوی عزیزی میں ہے:
"وحدت الوجود" اور" ہمہ اوست" کا ظاہری معنی خلافِ شرع ہے ،جو شخص اس کا قائل ہو اگر اس کا اعتقاد ہو کہ حق تعالٰی نے تمام چیزوں میں حلول فرمایا ہے یا اس شخص کا عقیدہ ہو کہ تمام اشیاء اس ذات مقدس کے ساتھ متحد ہیں تو اس کلام سے کفر لازم آتا ہے اور اگر اس شخص کی مراد یہ ہے کہ تمام چیزوں میں اللہ تعالیٰ کی صفتوں کا ظہور ہے جیسا کہ جب کوئی شخص آئینہ میں اپنی صورت دیکھتا ہے تو جو صفتیں اس کی صورت کے متعلق ہوتی ہیں وہ صفتیں آئینہ میں ظاہر ہو جاتی ہیں، تو ایسی حالت میں اس کلام سے کفر لازم نہیں آتا ہے، لیکن اس کلام سے ایسے ایک امر کا گمان ہوتا ہے جو خلاف شرع ہے، اس واسطے یہ کلام مجلسوں میں شائع کرنا مناسب نہیں، علی الخصوص جب عوام کی مجلس ہو تو نہایت نا مناسب ہے کہ یہ کلام وہاں شائع کیا جائے ، اس واسطے کر عوام ایسی باتوں میں غور نہیں کرتے ، یعنی ان کا خیال ظاہر معنی کی جانب ہوتا ہے ، تو اس کلام سے عوام کا عقیدہ فاسد ہو جائے گا۔"
(باب التصوف، ص: 135، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602100974
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن