میں اپنے والد صاحب کے ساتھ کاروبار کرتا تھا، کاروبار والد صاحب کا تھامیں صرف تنخواہ دار کی حیثیت سے کام کرتا تھا، والدصاحب کے ذمہ کچھ کاروباری قرضہ تھا، اب والدصاحب کا انتقال ہوا ، میرے بھائی کہہ رہے ہیں ، کہ ہم اس قرض کے ذمہ دار نہیں ، تم والد صاحب کے ساتھ تھے، لہذا تم ہی قرضہ ادا کرو ، اب سوال یہ ہے کہ والدصاحب کا کاروباری قرضہ کون ادا کرے گا؟ صرف میں ہی ادا کروں گا؟ یا سب بھائی ادا کریں گے؟
صورتِ مسئولہ میں مرحوم والد صاحب کا قرضہ ان کے ترکہ میں سے ان کی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد تقسیم سے پہلے ان کے کل ترکہ سے ادا کیا جائے گا ، دیگر بھائیوں کا صرف ایک بھائی یعنی سائل کو والد صاحب کے قرضہ کی ادائیگی کا ذمہ دار ٹھہراناشرعا درست نہیں ہے، بلکہ والد صاحب کا قرضہ پہلے تو ان کے ترکے سے ادا کیا جائے گا، اگر ان کے ترکے میں مال نہ ہو،یا تھوڑا مال ہو اس سے مکمل قرضہ ادا نہ ہو سکے تو اولاد کے ذمے والد کا قرض ادا کرنا لازم تو نہیں ،البتہ ادا کریں گے تو یہ والدپر احسان ہوگا۔سب بھائی مل کر اپنے والد صاحب کا قرضہ ادا کریں ، جس طرح والد زندگی میں اپنی اولاد کے لیے سب کچھ قربان کردیتا ہے ، ان کی خاطر طرح طرح تکالیف اٹھاتاہے ، بچپن سے لے کر بڑے ہونے تک والد کے اولاد پر بے شمار احسانات ہیں ، تو اولاد کو بھی چاہئے کہ اپنے محسن کے ساتھ ان کے انتقال کے بعد احسان کرے، ان کا قرضہ ادا کردے ۔
حدیث میں ہے:
” حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: کہ جناب نبی اکرمﷺ کے پاس ایک جناز ہ لایا گیا ،تا کہ آپ ﷺ اس پر نماز جنازہ پڑھیں، آپ ﷺنے فرمایا :کیا تمہارے اس ساتھی پر کچھ قرض تو نہیں، لوگوں نے بتلایا ،کہ ہاں اس پر قرض ہے، آپﷺ نے دوبارہ فرمایا ،کہ کیا یہ اپنے قرض کی ادائیگی کیلئے قرض کی مقدار مال چھوڑ گیا، انہوں نے عرض کیا نہیں ،آپ ﷺ نے فرمایا، تم اپنے ساتھی پر نماز جنازہ پڑھو ،یعنی میں نہیں پڑھوں گا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اس کے قرض کی ادائیگی میرے ذمہ ہے، چنانچہ آپ ﷺنے آگے بڑھ کر اس پر نماز جنازہ ادا فرمائی۔ ایک دوسری روایت کے الفاظ مختلف ہیں، مگر مفہوم روایت کا ایک ہی ہے، اس میں یہ لفظ زائد ہے کہ آپﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فر مایا، کہ اللہ تعالی تجھے دوزخ کی آگ سے اسی طرح چھٹکارا دے، جیسا تم نے اپنے بھائی کی جان کو دوزخ سے چھڑایا ،آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی مسلمان بندے کا قرض ادا کرتا ہے، تو اللہ تعالی قیامت کے دن اس کو دوزخ سے چھٹکارہ عنایت فرمائیں گے۔“(ماخوذ ازمظاہر حق جدید)
مشکٰوۃ المصابیح میں ہے:
[22] وعن أبي سعيد الخدري قال: أتى النبي صلى الله عليه وسلم بجنازة ليصلي عليها فقال: «هل على صاحبكم دين؟» قالوا: نعم قال: «هل ترك له من وفاء؟» قالوا: لا قال: «صلوا على صاحبكم» قال علي بن أبي طالب: علي دينه يا رسول الله فتقدم فصلى عليه. وفي رواية معناه وقال: «فك الله رهانك من النار كما فككت رهان أخيك المسلم ليس من عبد مسلم يقضي عن أخيه دينه إلا فك الله رهانه يوم القيامة» . رواه في شرح السنة."
( کتاب البیوع، باب الإفلاس والانظار،الفصل الثاني، ج:2، ص:881، ط:المكتب الإسلامي - بيروت)
الدرالمختار مع ردالمحتار میں ہے:
" (ثم) تقدم (ديونه التي لها مطالب من جهة العباد) ويقدم دين الصحة على دين المرض إن جهل سببه وإلا فسيان كما بسطه السيد.
وفي الرد: (قوله ويقدم دين الصحة) هو ما كان ثابتا بالبينة مطلقا أو بالإقرار في حال الصحة ط."
(كتاب الفرائض، ج:10، ص:529، ط:رشیدیه)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144603102679
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن