بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

وکیل بالشراء ( خریداری کا وکیل ) معاملہ پر عمل نہ کرے اور خریداری نہ کرے تو مؤکل کا اُس کو دی گئی رقم میں اضافہ کا مطالبہ کرنا


سوال

کیافرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس بارے میں کہ ایک عورت جو کہ میری والدہ کی جاننے والی تھی، اس نے میری والدہ کو آج سے کئی سال قبل پچاس ہزار روپے یہ کہہ کر دیے تھے کہ آپ اس پچاس ہزار روپے سے میرے لیے ایک تولہ سونا خرید لینا، یہ سونا درحقیقت وہ عورت اپنی بیٹی کے لیے لینا چاہتی تھی۔ اُس وقت ایک تولہ سونے کی قیمت بھی غالباً پچاس ہزار ہی تھی۔ بہرحال میری والدہ نے پیسے لےکر رکھ لیے اور سونا خریدنے کی ہامی بھرلی، لیکن مصروفیات کی وجہ سے وہ سونا خریدنے نہ جاسکیں اور کافی عرصہ گزر گیا، اِس دوران وہ عورت بھی نہ آئی ، اور سونے کی قیمت بھی بڑھ گئی۔

پھر ایک روز وہ عورت آئی اور میری والدہ سے سونے کا مطالبہ کیا تو انہوں نے عذر پیش کیا اور بتایا کہ سونا نہ خرید سکی تمہارے پیسے موجود ہیں یہ لے جاؤ، اس پر اس نے اعتراض کیا اور کہا مجھے سونا ہی چاہیے ، پیسے نہیں چاہیے، اس وقت سونے کی قیمت ایک لاکھ سینتیس ہزار روپے چل رہی تھی۔خیراس کے جھگڑے کی وجہ سے میری والدہ نے اُس کو کہا کہ اب تم مجھ سے موجودہ ایک تولہ سونے کی قیمت ایک لاکھ سینتیس ہزار کے حساب سے ایک لاکھ روپے فی الحال لے جاؤ اور باقی سینتیس ہزار روپے کچھ عرصہ میں کرکے تمہیں ادا کردوں گی، اس پر وہ راضی ہوئی لیکن پھر بھی پیسے لے کر وہ نہ گئی، اور یوں وہ پیسے والدہ کے پاس ہی رہ گئے۔ اس وقت والدہ نے اُسے کہا تھا کہ اب میں تمہیں یہی ایک لاکھ سینتیس ہزار روپے ہی دوں گی، ایک تولہ سونے کی قیمت زیادہ ہو تو میں اضافی کچھ رقم نہیں دوں گی۔

بہرکیف اب کافی عرصہ گزرنے کے بعد وہ عورت دوبارہ آکر موجودہ ایک تولہ سونے کی قیمت کے حساب سے تین لاکھ روپے کا مطالبہ کررہی ہے، اس سلسلے میں آپ سے سوال یہ ہے کہ شریعت کی رو سے کتنے پیسوں کی ادائیگی میری والدہ کے ذمہ لازم ہے؟ 

جواب

بصورتِ مسئولہ سائل کی والدہ کو مذکورہ عورت نے جب پچاس ہزار روپے ایک تولہ سونا خریدنے کے لیے دیے تھے،اگر اُن دنوں میں بازار جاکر سونا خریدنے کا وقت نہیں مِلا تھا تو اُن پر شرعاً و اخلاقاً لازم تھا کہ پیسے دینے والی عورت کو اطلاع کر کے اس  سے اپنا عذر بیان کر کے وقت لیتی یا وہ پیسے اُسے واپس کردیتی، اُس عورت کے اعتماد کو ٹھیس پہونچا کر غفلت کا مظاہرہ  کرتے رہنا اور اسے کچھ نہ بتلانا یہاں تک کہ پچاس ہزار روپے تولے کا سونا ایک لاکھ سے اوپر کا ہوجائے، یقیناً ایک غیراخلاقی و غیرشرعی طرز عمل ہے،اور اگر بالفرض سائل کی والدہ نے مذکورہ پیسے اپنے ذاتی استعمال میں خرچ کرلیے تھے، اور اِس کی وجہ سے سونا خریدنے کا موقع نہ مِل سکا تو یہ امانت میں بہت بڑی خیانت ہے، جس کا گناہ اُن کے سر پرہوگا، بہرصورت سائل کی والدہ پر مذکورہ عورت سے معافی تلافی کرنا لازم ہے۔

اللہ تعالیٰ نے  قرآن مجید  میں امانت داری کی تاکید فرمائی ہے، ارشاد باری ہے:

فَلْیُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَه وَلْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّه(بقرة: ۲۸۳)

ترجمہ: ”تو جو امین بنایا گیا ا س کو چاہیے کہ اپنی امانت ادا کرے اورچاہیے کہ اپنے پروردگار اللہ سے ڈرے “۔

حدیث شریف میں ہے:

"وعن أنس رضي الله عنه قال: قلما خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا قال: «‌لا ‌إيمان ‌لمن ‌لا ‌أمانة له ولا دين لمن لا عهد له» . رواه البيهقي في شعب الإيمان"۔

(مشكاة المصابيح، کتاب الإیمان، الفصل الثانی، رقم الحديث:35، 1/17،المكتب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ:”حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : بہت کم  ایسا ہوتا کہ  نبی کریم ﷺ   ہم سے بیان کرتے اور یہ نہ کہتا ہوں کہ جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس شخص میں معاہدہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں “۔

تاہم سائل کی والدہ نے اگر واقعۃً اُس عورت کے دیے گئے پیسوں سے سونا نہیں خریدا تھا اور نہ ہی کبھی یہ اقرار کیا کہ میں نے اسی سے سونا خرید کر رکھا ہے ، تو پھر چوں کہ عملاً وہ رقم سونے میں تبدیل نہیں ہوئی اس لیے اب بھی وہ پچاس ہزار روپے  اُن کے اوپر واجب الاداء ہوں گے، اور اب اُن کے ذمہ اُس عورت کو وہ پچاس ہزارروپے ادا کرنا ہی لازم ہے، رقم دینے والی عورت کا  پچاس ہزار روپے سے زائد رقم کی واپسی کا مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہے۔البتہ اگر سائل کی والدہ نے مذکورہ خاتون کو کبھی یہ بتلایا تھا کہ میں نے تمہاری رقم سے سونا خریدا ہے تو پھر اس کی وضاحت کر کے مسئلہ دوبارہ معلوم کرلیاجائے۔

دررالحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(‌المال ‌الذي ‌قبضه ‌الوكيل بالبيع والشراء وإيفاء الدين واستيفائه وقبض العين من جهة الوكالة في حكم الوديعة في يده فإذا تلف بلا تعد ولا تقصير لا يلزم الضمان. والمال الذي في يد الرسول من جهة الرسالة أيضا في حكم الوديعة) . ضابط: الوكيل أمين على المال الذي في يده كالمستودع."

(الكتاب الحادي عشر الوكالة،الباب الثالث، الفصل الأول في بيان أحكام الوكالة العمومية،ج:3، ص:561، ط:دارالجيل)

وفيه ايضا:

"المال الذي في يد الوكيل بالشراء - وهذا المال أيضا إما أن يكون ثمنا أو مشترى. وكلاهما أمانة أيضا فلو أعطى أحد عشرة دنانير لآخر لشراء فرس له، فتكون العشرة الدنانير أمانة في يد الوكيل ولا يلزم ضمان بتلفه بلا تعد ولا تقصير."

(الكتاب الحادي عشر الوكالة،الباب الثالث، الفصل الأول في بيان أحكام الوكالة العمومية،ج:3، ص:562، ط:دارالجيل)

الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے:

"ذهب الحنفية والشافعية والحنابلة وبعض المالكية إلى أن الوكالة من العقود الجائزة من الجانبين لأن الوكالة تبرع ولا لزوم في التبرعات.

واستدلوا على عدم لزوم عقد الوكالة بأن الموكل قد يرى المصلحة في ترك ما وكل فيه أو في توكيل آخر، كذلك الوكيل قد لا يتفرغ، فيكون لزوم العقد مضرا بهما.واستثنى الحنفية والمالكية من ذلك ما إذا تعلق بالوكالة حق الغير، فإنها تكون لازمة.ومثل الحنفية ذلك بوكيل خصومة بطلب الخصم..الخ"

(بحث الوكالة، ‌‌صفة عقد الوكالة، ج:45، ص:19، ط:دارالسلاسل)

فقط والله اعلم بالصواب


فتوی نمبر : 144609100900

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں