ایک مولوی صاحب کتابوں کی تالیف اور تصنیف کا کام کرتے ہیں، وہ خود کتابیں لکھتے ہیں، اب وہ یہ چاہتے ہیں کہ اپنی کتابیں مکتبہ والوں کے پاس بیچنے کے لیے رکھیں، اور قیمت بھی مشخص کریں کہ: اتنی قیمت میں فروخت کرنا ہے، اب اگر مکتبہ والے مقررہ قیمت سے زیادہ قیمت پر فروخت کریں تو شرعا اس کا کیا حکم ہے؟ جبکہ مکتبہ والے فروخت کرنے کے بعد مصنف کو کتابوں کے قیمت دے دیتے ہیں۔
اس مسئلہ کی شرعی جائز صورت کیا ہوگی کہ زیادہ قیمت پر فروخت کرنے کی صورت میں اضافی قیمت مکتبہ والے اپنے پاس رکھیں؟
اگر مکتبہ والوں کو کتابیں اس طور پر دیتے ہیں کہ وہ مولوی صاحب کے وکیل ہونے کی حیثیت سے کتابیں فروخت کریں،اور قیمت بھی متعین کردیتے ہیں تو اس صورت میں مکتبہ والے اس بات کے پابند ہوں گے کہ وہ اسی متعین قیمت پر فروخت کریں، اور اگر اس سے زائد قیمت پر فروخت کریں گے تو وہ زائد منافع مؤکل (مولوی صاحب) کے ہوں گے اور اس کے حوالے کرنے ضروری ہیں۔
البتہ اگر مکتبہ والے مولوی صاحب کے وکیل بننے کی بجائے ان سےکتابیں ان کی متعین کردہ قیمت پر خرید لیں اور آگے زیادہ قیمت پر کسی اور کو بیچ دیں تو اس صورت میں زائد نفع اپنے پاس رکھنا جائز ہوگا۔
"فتاویٰ تاتارخانیہ" میں ہے:
"قال محمد الوكيل بالبيع بالف إذا باع بألفين جاز عندنا خلافا لزفر."
(کتاب الوکالۃ، نوع أخر في البيع إذا خالف في الثمن وفي تغير المبيع بعد التوكيل قبل البيع ، 12 / 373، ط:مکتبہ زکریابدیوبند الھند)
"الدر المختار "میں ہے:
"[فرع] الوكيل إذا خالف، إن خلافا إلى خير في الجنس كبع بألف درهم فباعه بألف ومائة نفذ، ولو بمائة دينار لا، ولو خيرا خلاصة ودرر."
(کتاب الوکالۃ، باب الوکالۃ بالبیع والشراء، 5/ 521، ط:سعید)
وفیہ ایضاً:
"(وشرط) الموكل (عدم تعلق الحقوق به) أي بالوكيل (لغو) باطل جوهرة (والملك يثبت للموكل ابتداء) في الأصح."
(کتاب الوکالۃ، 5/ 514، ط:سعید)
وفیہ أیضاً:
"(المرابحة) مصدر رابح وشرعا (بيع ما ملكه) من العروض ولو بهبة أو إرث أو وصية أو غصب فإنه إذا ثمنه (بما قام عليه وبفضل) مؤنة وإن لم تكن من جنسه كأجر قصار ونحوه، ثم باعه مرابحة على تلك القيمة جاز مبسوط."
(کتاب البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ، 5/ 132، ط:سعید)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144509100703
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن