بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 ذو الحجة 1445ھ 04 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل کا مؤکل کے مال میں خیانت کرنے کا حکم


سوال

ایک شخص نے دوسرے شخص کو بطورِ مضاربت کام کرنے کےلیے کچھ رقم دی، اور اصل مالک(رب المال) نےرقم دیتے وقت کام کرنے والے(مضارب) کو اس بات کا مکمل اختیار دیا تھا کہ وہ جو کام کرنا چاہے، جیسا چاہے کرسکتاہے، نیز یہ اجازت بھی دی تھی کہ کام کرنے کے دوران اگر کسی ملازم کی ضرورت ہوتو ملازم بھی رکھ سکتاہے، ان ملازمین کی تنخواہ مالک (رب المال) دے گا، کام کرنے والے (مضارب )نے کام شروع کیا، اور ضرورت پڑنے پر کام کرنے کےلیے ملازمین بھی رکھتا رہا، اس دوران یہ ہوا کہ مضارب(کام کرنے والا) اصل مالک (رب المال) سے ملازمین کے لیے جو ماہانہ تنخواہیں وصول کرتاتھا، ان میں سے ایک ملازم کی تنخواہ اپنے پاس ہی رکھتارہا، مذکورہ ملازم کو تنخواہ نہیں دیتاتھا، اور اس بات کا علم نہ ہی ملازم کو تھا کہ مالک(رب المال) نے اس کےلیے تنخواہ مقرر کی ہے، جو مضارب لے رہا ہے، اور نہ ہی اصل مالک(رب المال) کو اس بات کا علم تھا کہ مضارب مذکورہ ملازم کی تنخواہ اپنے پاس رکھ رہا ہے۔ 

کچھ عرصہ کے بعد جب یہ معاملہ کھلا، تو مضارب (کام کرنے والا) پہلے تو انکار کررہا تھا، پھر بعد میں یہ کہنے لگا کہ وہ تنخواہ ملازم نے انہیں ہر مہینے ہدیہ کرتا رہتا تھا، اب سوال یہ پوچھنا ہے کہ کیا اس طرح ہدیہ کرنا درست ہے، جب کہ اس  تنخواہ کے مالک(ملازم) کو معلوم ہی نہ ہو، اور اس کی طرف مضارب اپنے حق میں ہدیہ سمجھے؟ اگر یہ ہدیہ درست نہیں تو کیا مضارب پر مذکورہ رقم کی واپسی ضروری ہے؟

وضاحت: رب المال نے مضارب کو مضاربت کا معاملہ طے کرتے وقت یہ کہا تھا کہ ضرورت پڑنے پر آپ کام کرنے کےلیے ملازمین بھی رکھ سکتے ہو، جب کام شروع ہوا، تو کام کرنے کےلیے ملازمین کی ضرورت تھی، اس کےلیےمضارب نے رب المال کے علم میں لانے کےبعد ملازمین رکھے تھے، یعنی رب المال کو ملازمین کا پتہ تھا، اور رب المال نے خود ہی ہرایک کےلیے تنخواہ طے کرکے ہرایک کو ماہانہ تنخواہ دیتے رہے، اس دوران مضارب نے دھوکہ دہی سے کام لیا، اور ایک ملازم کی تنخواہ اپنے پاس روکتا تھا، اور اپنے ذاتی استعمال میں خرچ کرتا رہا۔

جواب

واضح رہے کہ کسی کو ہدیہ / ہبہ(گفٹ) کرنے کا مطلب و معنی یہ ہوتاہے کہ اپنی مملوکہ چیز کا کسی دوسرے کو بغیر عوض کے مالک بنایا جائے، نیزکاروبار سے متعلق عرف کے مطابق جتنے بھی اخراجات ہوں، وہ مالِ مضاربت سے لیے جاتےہیں، اور ان اخراجات کو منافع تقسیم کرنے سے پہلے نفع سے منہا کیا جائے گا، البتہ ذاتی اغراض کے لیے صرف شدہ رقم مالِ مضاربت سے لینا جائز نہیں۔

 صورتِ مسئولہ میں مضارب(کام کرنے والے)کےلیے مذکورہ  ملازم کی تنخواہ اس کی اجازت کے بغیر خودرکھ لیناشرعاً درست نہیں تھا؛ کیوں کہ تنخواہ کی یہ رقم مضارب کے پاس مالک کی امانت تھی، اور مضارب رب المال(اصل مالک) کی طرف سے اس رقم کو ملازم تک پہنچانے کےلیے وکیل تھا، جسےاصل  ملازم تک پہنچانا مضارب کے ذمہ ضروری تھا،  مضارب نےمذکورہ رقم کے پہنچانے میں جو خیانت کی ہے، اس کی وجہ سے وہ گناہ گار ہوگا، مضارب  اپنے اس فعل پر  تو بہ و استغفارکرے، اور جتنی رقم ملازم کی تنخواہ سے  لی ہے، اتنی رقم ملازم کے حوالے کردے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مسلمان کا مال اس کی اجازت کے بغیر استعمال کرنے کو حرام قرار دیا ہے، ارشاد نبوی ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ’’ألا تظلموا ألا ‌لا ‌يحل ‌مال امرئ إلا بطيب نفس منه ‘‘. رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."

ترجمہ:’’خبردار کسی پر ظلم و زیادتی نہ کرو، خبردار کسی آدمی کی ملکیت کی کوئی چیز اس کی دلی رضامندی کے بغیر لینا حلال اور جائز نہیں ہے ۔‘‘

(مشکوٰۃ المصابیح، باب الغصب والعاریة، الفصل الثانی، حدیث:2946، ج:2، ص:889،  ط:المكتب الإسلامي - بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(هي) لغة: التفضل على الغير ولو غير مال. وشرعا: (تمليك العين مجانا) أي بلا عوض."

(كتاب الهبة، ج:5، ص:687، ط:سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"والنفقة هي ما يصرف إلى ‌الحاجة ‌الراتبة وهي الطعام والشراب والكسوة وفراش ينام عليه والركوب وعلف دابته كذا في محيط السرخسي. ومن ذلك غسل ثيابه والدهن في موضع يحتاج إليه كالحجاز وأجرة الحمام والحلاق وإنما يطلق في جميع ذلك بالعرف حتى يضمن الفضل إن جاوزه."

(كتاب المضاربة، الباب الثاني عشر في نفقة المضارب، ج:4، ص:312، ط:رشیدیة)

الموسوعة الفقهية الكويتيةمیں ہے:

"تتعلق بالوكيل أحكام، منها:

الأول: أن يقوم الوكيل ‌بتنفيذ ‌الوكالة في الحدود التي أذن له الموكل بها أو التي قيده الشرع أو العرف بالتزامها."

(وكالة، أحكام الوكالة:الحكم الأول، تنفيذ الوكالة، ج:45، ص:37، ط:دارالسلاسل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100236

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں