بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

وکیل کو شوہر کی طرف سے خلع کا اختیار نہ ہو اور وکیل اختیار جج کو دے دے


سوال

تقریباً ساڑھے تین سال پہلے میری بیٹی کی شادی ہوئی اور کچھ عرصہ بعد میری بیٹی  اور داماد کے درمیان کچھ اختلافات پیدا ہو ئے اور معاملات  خلع تک پہنچ گئے، میری بیٹی نے عدالت میں خلع کا مقدمہ کیا، عدالت میں اس کیس کا جواب  لڑکے نے جمع کروایا لیکن تین تاریخوں پر پیش نہیں ہوا، آخری پیشی میں لڑکے کی طرف سے وکیل حاضر ہوا اور جج نے مصالحت کرنے کو کہالیکن وکیل نے انکار کردیا جج نے وکیل سے پوچھا کہ کرنا کیا ہے، وکیل نے جواب دیا کہ جو آپ فیصلہ کریں،  پھر لڑکے کی غیر موجودگی میں بغیر دستخط کے جج نے خلع دے دی ،نیز میری بیٹی نے خلع کی رقم بھی اد انہیں کی، اب  پچھلے ڈھائی سال سے لڑکے کا کہنا ہے کہ اس نے وکیل کو خلع دینے کا اختیار نہیں دیا تھا، اور اس کا کہنا ہے کہ میری بیٹی اب بھی اس کے نکاح میں ہے، اب میری بیٹی کے لیے شرعاً کیا حکم ہے؟ کیا میری بیٹی اور اس لڑکے کے درمیان نکاح برقرار ہے یا اب دونوں کو ساتھ رہنے کے لیے دوبارہ نکاح کرنے کی ضرورت ہے؟

جواب

واضح رہےکہ خلع دیگر مالی معاملات کی طرح ایک معاملہ ہے  جس طرح دیگر مالی معاملات کے لیے عاقدین کی رضامندی شرعاََ ضروری ہوتی ہے اسی طرح خلع کے معتبر اور درست ہونے کے لیے بھی زوجین کی رضامندی شرعًا ضروری ہوتی ہے،کوئی ایک فریق راضی ہو دوسرا راضی نہ ہو تو ایسا خلع شرعًا معتبر نہیں ہوتا،خواہ وہ عدالتی خلع ہی کیوں نہ ہو، بلکہ نکاح بدستور قائم رہتا ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں منسلکہ عدالتی یکطرفہ خلع کو شرعی خلع نہیں قرار دیا جا سکتا، اس لیے کہ شوہر نے خلع کو قبول نہیں کیا اور نہ ہی اس نے وکیل کو خلع کا اختیار  دیا تھا، نیز عدالتی فیصلہ کو تنسیخِ نکاح قرار  نہیں دیا جاسکتا اس لیے کہ تنسیخ نکاح  کے لیے چند شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، اور وہ یہ کہ یا تو شوہر نامرد ہو، یا مجنون ہو، یا مفقود (لاپتا ہو) ہو یا متعنت (ظالم) ہو کہ بیوی کا نان نفقہ نہ دیتا ہو، اور ظلم کرتا ہو، پھر عورت اپنے اس دعوی کو شرعی گواہوں کے ذریعے عدالت کے سامنے ثابت بھی کرے، جب کہ منسلکہ فیصلہ میں  تنسیخ ِنکاح کی شرائط نہیں پائی گئیں،لہذالڑکے  کا  نکاح  شرعاًبدستور برقرار  ہے  ، اب دونوں کو احساس ہو رہا ہے کہ دوبارہ گھر بسانا مناسب ہےتو شرعاً اس کی گنجائش ہے، اس کےلیے دوبارہ  نکاح کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے :

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه ‌عقد ‌على ‌الطلاق ‌بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول ."

(كتاب الطلاق، فصل في شرائط ركن الطلاق وبعضها يرجع إلى المرأة، ج : 4، ص : 315، ط : دار الکتب العلمیة)

تنویر الابصار مع الدر المختار  میں ہے :

"(وكذا إذا استثنى) الموكل (إقراره) بأن قال وكلتك بالخصومة غير جائز الإقرار صح التوكيل والاستثناء على الظاهر بزازية (فلو أقر عنده) أي القاضي (لا يصح وخرج به عن الوكالة) فلا تسمع خصومته درر."

(كتاب الوكالة، باب الوكالة بالخصومة والقبض، ج :5، ص : 531، ط : سعید)

البحر الرائق میں ہے :

"وفي النهاية يصح استثناء الإقرار في ظاهر الرواية وفي البزازية ولو وكله بالخصومة غير جائز الإقرار صح ولم يصح الإقرار في الظاهر لو موصولا وفي الأقضية ومفصولا أيضا۔۔۔فالحاصل أنها على خمسة أوجه كما في الذخيرة ۔۔۔ الثاني أن يستثنى الإقرار فيكون وكيلا بالإنكار فقط ."

(كتاب الوكالة، باب الوكالة بالخصومة والقبض، ج :7، ص : 309، ط : دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512101343

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں