بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ضرورت کے وقت ہدیہ کی گئی رقم کو واپس لینے کا حکم


سوال

میری منگنی کے وقت سسر کو پیسوں کی ضرورت تھی انہوں کہاکہ اگر اپ لوگ 80 ہزار روپے دے دیں تو میں اپنی بیٹی کا رشتہ آپ کے بھائی سے کر دوں گا، میں اس وقت کام کے سلسلے میں کراچی میں تھا میں نے کہا کہ میں 80 ہزار روپے بھیج دوں گا ،میں نے 80 ہزار روپے گاؤں میں اپنے والد اور بھائی کو بھیج دیے، تو والد اور بھائی نے سسر کو پیسے دے دیے،پیسے دیتے وقت اس بات کاذکرہواتھاکہ یہ اللہ کی رضاکےلئےدیئےہیں ،اوریہ کہاتھااس وقت کہ اللہ کےلئےبخش دیئےہیں واپسی کاکوئی ارادہ نہیں تھا، اس کےبعد میرا رشتہ ہو گیا، پھر شادی کے کئی سال کے بعد میری بیوی نے اپنےبھائی کو کہا کہ آپ نے میرے رشتے پر پیسے لیے ہیں ،تو میرے سالے نے کہا کہ میں وہ پیسے اب واپس کر دوں گا، لیکن میرے( مستفتی کے) بڑے بھائی کو پیسے دوں گا کیوں کہ اسی کے ہاتھوں پیسے جمع کروائے گئے تھے اور بڑے بھائی سے میرے تعلقات نہیں ہیں ،تو سوال یہ ہے کہ اب ان 80 ہزار روپے کا حق دار کون ہوگا؟ میں یا میرا بڑا بھائی؟ اور کیا اس کی حق دار میری اہلیہ ہو سکتی ہے؟ کیونکہ اسی کے نام پر یہ پیسے لیے گئے تھے۔

نوٹ والد صاحب اور سسر دونوں کا انتقال ہو چکا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں، چونکہ سائل نے رقم دیتے وقت صراحتاً یہ کہا تھا کہ وہ اسے اللہ کی رضا کے لیے دے رہا ہے اور اسے بخش دیا تھا، نیز واپس لینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، تو یہ عمل شرعاً تبرع اور احسان کہلائے گا، لہٰذامذکورہ رقم پر قبضہ کرنے کے بعد سائل کا سالا اس رقم کا مالک بن چکا تھا،سالےکےلئے یہ رقم سائل کو واپس کرنا شرعاً ضروری نہیں،اگر سالا اپنی مرضی سے یہ رقم سائل کو واپس کرنا چاہے،تو ایسا کر سکتا ہے مگر سالے پر شرعاًلازم نہیں۔

بصورتِ دیگر، وہ 80 ہزار روپے سائل ہی کا حق رہیں گے، کیونکہ سائل کا بھائی محض رقم پہنچانے کا وکیل تھا، لہٰذا، سائل کے بھائی اور سائل کی بیوی کا اس رقم میں کوئی حق نہیں ہوگا،اگر سالا یہ رقم اپنی رضامندی سےواپس کرناچاہےتو سائل ہی اس کا اصل حق دار ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما شرائط الرجوع بعد ثبوت الحق حتى لا يصح بدون القضاء والرضا لأن الرجوع فسخ العقد بعد تمامه وفسخ العقد بعد تمامه يصح بدون القضاء والرضا كالرد بالعيب في البيع بعد القبض."

(كتاب الهبة، فصل في حكم الهبة، ج: 6، ص: 128، ط: دارالکتب العلمية)

تحفۃ الفقہاءمیں ہے:

"وإذا قبض الوكيل يبرأ المديون وصار المقبوض ملكا لصاحب الدين ويكون أمانة في يد الوكيل ويكون حكمه حكم المودع في أن يقبل قوله إنه دفعه إلى صاحب الدين وفي كل ما يبرأ بهالمودع من الوديعة."

(کتاب الوکالة، ج: 3، ص: 230، ط: دارالکتب العلمیة )

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"‌وأما ‌حكمها ‌فوجوب ‌الحفظ ‌على ‌المودع ‌وصيرورة ‌المال ‌أمانة ‌في ‌يده ‌ووجوب ‌أدائه ‌عند ‌طلب ‌مالكه، ‌كذا ‌في ‌الشمني. 

‌الوديعة ‌لا ‌تودع ‌ولا ‌تعار ‌ولا ‌تؤاجر ‌ولا ‌ترهن، ‌وإن ‌فعل ‌شيئا ‌منها ‌ضمن، ‌كذا ‌في ‌البحر ‌الرائق."

(کتاب الودیعة، الباب الأول في تفسير الإيداع الوديعة وركنها وشرائطها وحكمها، ج: 4، ص: 338، ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609100885

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں