1- اگر کسی نے کسی کو زکوٰۃ ادا کر نے کا وکیل بنایا اور وکیل نے ایسے شخص کو مال زکوٰۃ دیا جو اس کا اہل نہیں ہے تو کیا زکوٰۃ ادا ہوگی؟
2- زکوٰۃ ادا ہونے کے لیے کیا شرائط ہیں؟
3- مستحقین زکوٰۃ کون ہے؟
1۔۔ اگر وکیل شخص زکاۃ ادا کرنے سے پہلے غور و فکر کر کے کسی کو مستحق سمجھ کر زکاۃ دے دے پھر معلوم ہو کہ وہ مال دار یا ہاشمی (سید یا عباسی) تھا تو ایسی صورت میں زکاۃ ادا کرنے والے کی زکاۃ ادا ہوجائے گی اور زکاۃ دوبارہ ادا کرنے کی ضرورت نہ ہو گی۔
لیکن اگر زکاۃ کی ادائیگی سے پہلے مصرف کی تعیین میں تدبر ہی نہ کیا ہو اور بعد میں غیر مستحق ہونے کا پتا چلا تو ایسی صورت میں زکاۃ کی ادائیگی درست نہ ہو گی اور زکاۃ دوبارہ ادا کرنا ہو گی۔
الفتاوى الهندية (1/ 190):
"وإذا دفعها، ولم يخطر بباله أنه مصرف أم لا فهو على الجواز إلا إذا تبين أنه غير مصرف، وإذا دفعها إليه، وهو شاك، ولم يتحر أو تحرى، ولم يظهر له أنه مصرف أو غلب على ظنه أنه ليس بمصرف فهو على الفساد إلا إذا تبين أنه مصرف، هكذا في التبيين".
2۔۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے یہ ضروری ہے کہ زکوۃ کسی مسلمان، مستحقِ زکوٰۃ شخص کو بغیر عوض کے مالک بنا کردی جائے۔
3۔۔ زکاۃ کے مصارف سات ہیں: فقیر، مسکین، عا مل ، رقاب، غارم، فی سبیل اللہ اور ابن السبیل۔
1۔۔ فقیر: وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ مال ہے، مگر اتنا نہیں کہ نصاب کو پہنچ جائے۔
مستحقِ زکوٰۃ کے صاحبِ نصاب نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا مسلمان شخص جو غریب اور ضروت مند ہو اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ اصلیہ سے زائد ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر رقم نہ ہو ، اور نہ ہی اس قدر ضرورت و استعمال سے زائد سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ ہی وہ ہاشمی (سید، عباسی) ہے تو اس شخص کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی۔ اگر کسی شخص کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے برابررقم ہو، یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو، یا ضرورت سے زائد سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو، یا ان میں بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو تو اس کو زکاۃ دینا اور اس کے لیے زکاۃ لینا جائز نہیں ہے۔
2۔ مسکین: وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو، یہاں تک کہ وہ کھانے اور بدن چھپانے کے لیے بھی لوگوں سے سوال کا محتاج ہو۔
3۔ عامل: وہ ہے جسے بادشاہِ اسلام نے زکاۃ اور عشر وصول کرنے کے لیے مقرر کیا ہو، حکومت اسے زکاۃ کی رقم سے دے سکتی ہے۔
4۔ رِقاب: سے مراد ہے غلامی سے گردن رہا کرانا، لیکن اب نہ غلام ہیں اور نہ اس مدّ میں اس رقم کے صرف کرنے کی نوبت آتی ہے۔
5۔ غارم: سے مراد مدیون (مقروض) ہے یعنی اس پر اتنا قرض ہو کہ اسے نکالنے کے بعد نصاب باقی نہ رہے۔
6۔ فی سبیل اللہ: کے معنی ہیں راہِ خدا میں خرچ کرنا، اس کی چند صورتیں ہیں مثلاً کوئی شخص محتاج ہے کہ جہاد میں جانا چاہتا ہے اور اس کے پاس رقم نہیں تو اس کو زکاۃ دے سکتے ہیں۔
7 ۔ابن السبیل: سے مراد مسافر ہے، مسافر کے پاس اگر مال ختم ہو جائے تو اس کو بھی زکاۃ کی رقم دی جا سکتی ہے اگرچہ اس کے پاس اس کے اپنے وطن میں مال موجود ہو، اور سفر کے دوران گھر سے رقم منگوانے کا انتظام نہ ہوسکے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109201571
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن