بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

وکیل سے ضمان کا مطالبہ کرنے کا حکم


سوال

دو شخص آپس میں مشترکہ کاروبار کررہے تھے،کاروبار ختم ہونےکے بعد ایک شریک کے حصے میں 143000ہزارروپے آۓ،چوں کہ یہ شریک دور تھا؛ لہذا اس کے پارٹنرنےاس کی اجازت سے کسی دوسرے شخص کو یہ امانت سونپی؛ تاکہ اصل مالک تک یہ رقم پہنچادے،یہ شخص سفر کے لیے روانہ ہواتو راستے میں اس سے پیسے چوری ہوگئے،اب اصل مالک اس شخص سے ضمان کا مطالبہ کررہا ہے،کیا یہ مطالبہ کرناشرعاًدرست ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں چوں کہ مالک کی اجازت سے اس شخص کو رقم پہنچانے کا وکیل بنایا گیا تھا،لہذا یہ رقم اس کے پاس امانت تھی اور امانت کے ضائع ہونے کی صورت میں ضمان لازم نہیں آتا،لہذا مالک کا اس شخص سے ضمان کا مطالبہ کرنا جائز نہیں،ہاں البتہ رقم کی چوری ہونےمیں مذکورہ شخص کی اگر غفلت پائی گئی تو مذکورہ دوسرا شخص جو رقم لےکر سفر پر روانہ ہواتو شرعاً یہ شخص اس رقم کا ضامن ہوگا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(وأما ألفاظها) : فكل لفظ يدل على الإطلاق كقوله: وكلتك أو هويت أو أحببت أو رضيت أو شئت أو أردت۔۔۔
(وأما صفتها)۔۔۔ومنه أنه أمين فيما في يده كالمودع فيضمن بما يضمن به المودع ويبرأ به، والقول قوله في دفع الضمان عن نفسه."

(كتاب الوكيل،الباب الاول،564/567/3،ط:دار الفکر بیروت)

المحیط البرہانی میں ہے:

"و في فتاوى أبي الليث: و لو أن المودع قال: وضعت الوديعة من يدي فقمت و نسيتها فضاعت يضمن؛ لأن نسيانه تضييع."

(كتاب الوديعة،الفصل الرابع،532/533/5،ط:سعيد)
فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144601101126

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں