بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

وکیل کے انتقال کی صورت میں لی ہوئی فیس کا حکم


سوال

 میں پیشہ کے اعتبار سے وکیل ہوں ، عرف میں جب وکیل فیس لے کر کام شروع کر دے اور وکیل کا انتقال ہو جائے تو مؤکل فیس واپسی کا تقاضا اس کے وارثان سے نہیں کر سکتا،  ایسی صورت میں کیا انتقال کے بعد یہ قرض میں شمار ہو گا یا نہیں؟ کیوں کہ عرف میں فیس واپس نہ کرنا ہی رائج ہے، میرے پاس کافی مقدمات ہیں، پوری ایمان داری سے مقدمات میں پیش ہوتا ہوں، لیکن یہ ڈر رہتا ہے کہ اگر مقدمات چھوڑ کر انتقال ہو گیا تو کیا یہ قرض میں شمار ہو گا کہ نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مؤکل کی طرف سےوکیل کو  وکالت کے بدلے جو رقم مقرر کی جاتی ہے،وکیل جتنا عمل کرتا ہے،اس کے بقدر اجرت کا مستحق ہوتا ہے،اگر وکیل  اپنا عمل یعنی وکالت پوری کرلیتاہے،تو پوری اجرت کا مستحق ہوگا، اگر وکالت کا عمل کرنے سے پہلے اس کی وفات ہوئی،تو جتنا عمل وکیل نے کیا ہے،اس کے بقدر جتنی اجرت ملتی ہے،ورثاء اتنی اجرت لینے کے حق دار ہوں گے،باقی مالک کو واپس کرنا ضروری ہوں گے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله وكذا حكم الإجارة) أي لو استأجر أرضا فغلب عليها الماء أو انقطع لا تجب الأجرة، وأما لو أصاب الزرع آفة فإنما يسقط أجرة ما بقي من السنة بعد الهلاك لا ما قبله لأن الأجر يجب بإزاء المنفعة شيئا ‌فشيئا فيجب أجر ما استوفي لا غيره."

‌‌(كتاب الجهاد، باب العشر والخراج والجزية، مطلب في خراج المقاسمة، 191/4، ط: سعید)

وفيه ايضاً:

"(وللمؤجر طلب الأجر للدار والأرض) كل يوم (وللدابة كل مرحلة) إذا أطلقه.

(قوله: للدار والأرض إلخ) المراد كل ما تقع الإجارة فيه على المنفعة أو على قطع المسافة أو على العمل."

(كتاب الإجارة، شروط الإجارة، 14/6، ط: سعید)

وفيه ايضاً:

"(مات الآجر وعليه ديون) حتى فسخ العقد بعد تعجيل البدل (فالمستأجر) لو العين في يده ولو بعقد فاسد أشباه (أحق بالمستأجر من غرمائه) حتى يستوفي الأجرة المعجلة (إلا أنه لا يسقط الدين بهلاكه) أي بهلاك هذا المستأجر؛ لأنه ليس برهن من كل وجه (بخلاف الرهن) فإنه مضمون بأقل من قيمته ومن الدين كما سيجيء في بابه مجمع الفتاوى."

(كتاب الإجارة، شروط الإجارة، 21/6، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101105

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں