میں اپنے والد کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتا ہوں، والد صاحب کاروبار کرتے ہیں، اور والد صاحب کے کاروبار کا حساب کتاب لینا دینا سب کچھ میرے ذمہ ہے، میں دکان چلاتا ہوں اور والد کے کاروبار میں بھی ہاتھ بٹاتا ہوں، میں اپنے گھر کا خرچہ اور نظام سنبھالتا ہوں، اپنی دکان سے کبھی کبھار اپنے والد کے کاروبار کے پیسوں سے پیسے لے کر اپنی دوکان میں لگاتا ہوں یا کبھی گھر میں لگاتا ہوں یا میں اپنی ذات پر خرچ کرتا ہوں۔اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا جو والد صاحب کے کاروبار کے پیسوں سے پیسے لےکر میں اپنی دکان میں یا گھر میں لگاتا ہوں بغیر اجازت کیا ان کا حساب آخرت میں دینا پڑے گا ؟
بصورتِ مسئولہ والد کی زندگی میں ان کے مال پر شرعی طور پر بچوں کا حق نہیں ہوتا،اور نہ ہی اولاد کے لئے والد کی اجازت کے بغیر ان سرمایہ کا استعمال کرنا یا اس میں کسی بھی طرح کا تصرف کرنا جائز ہے، لہذا اگر کسی نے والد کا سرمایہ ان کی اجازت کے بغیر استعمال کیا ہے تو اپنے اس فعل پر اوّلاً توبہ واستغفار کرنی چاہیے، اور جتنا مال بغیر اجازت کے لیا ہے مکمل حساب لگاکر والد صاحب کو کسی معقول طریقہ سے واپس کیا جائے،یا بتلاکر معاف کرالے، ورنہ عنداللہ آخرت میں ماخوذ ہوں گے۔
عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں ہے:
"وقال النووي: إعلم أنه لا بد في العامل، وهو الخازن، وفي الزوجة والمملوك من إذن المالك في ذلك، فإن لم يكن له إذن أصلا فلا يجوز لأحد من هؤلاء الثلاثة، بل عليهم وزر تصرفهم في مال غيرهم بغير إذنه، والإذن ضربان. أحدهما: الإذن الصريح في النفقة والصدقة. والثاني: الإذن المفهوم من اطراد العرف: كإعطاء السائل كسرة ونحوها مما جرت به العادة، واطراد العرف فيه، وعلم بالعرف رضى الزوج والمالك به، فإذنه في ذلك حاصل وإن لم يتكلم، وهذا إذا علم رضاه لاطراد العرف، وعلم أن نفسه كنفوس غالب الناس في السماحة بذلك والرضى به، فأن اضطرب العرف وشك في رضاه أو كان شحيح النفس يشح بذلك، وعلم من حاله ذلك أو شك فيه، لم يجز للمرأة وغيرها التصدق من ماله إلا بصريح إذنه، وأما قوله صلى الله عليه وسلم، وأشار به إلى ما ذكرناه من حديث أبي هريرة آنفا فمعناه: من غير أمره الصريح في ذلك القدر المهين، ويكون معها إذن سابق يتناول لهذا القدرلا وغيره، وذلك هو الإذن الذي قدمناه سابقا إما بالصريح وإما بالعرف، ولا بد من هذا التأويل لأنه صلى الله عليه وسلم جعل الأجر مناصفة في رواية أبي داود، رحمه الله، فلها نصف أجره ومعلوم أنها إذا أنفقت من غير إذن صريح ولا معروف من العرف فلا أجر لها، بل عليها وزر، فتعين تأويله."
(کتاب الزکوۃ، باب أجر المرأة إذا تصدقت أو أطعمت من بيت زوجها غير مفسدة، ج:8، ص:305، ط:داراحیاء التراث العربی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144211200974
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن