ہماری شادی کو آٹھ سال ہو چکے ہیں لیکن کچھ طبی وجوہات کی بنا پر ہم اولاد کی نعمت سے محروم ہیں، ہم اب گزشتہ ایک برس سے سعودی عرب میں مقیم ہیں، ہم اب خاندان سے بچہ گود لینا چاہتے ہیں، جس کے لیے میری زوجہ کی بہن نے رضاکارانہ طور پر بچہ دینے کی حامی بھری ہے، اور اس بچے کی ولادت نو مبر میں متوقع ہے۔
ہمیں بہتر طور پر یہ معلوم ہے کہ اسلام میں گودلینے کی کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ کفالت جائز ہے،اور ہم بھی کفالت ہی کرنا چاہتے ہیں، نیزیہ کہ ہمارے پورے خاندان کو اس بات کا بخوبی پتہ ہوگا، اور ہم بچے کو بھی شروع دن سے ہی اس کے حقیقی والدین کا بتائیں گے،اس ضمن میں بچے کو سعودی عرب لے جانے کے لیے ہمیں فیملی ویزا اور فیملی حیثیت درکار ہوگی، جس کے لیے ایمبیسی کی جانب سے پاسپورٹ پر میرا نام بطور والد درج ہونا لازمی شرط ہے ،اس کے علاوہ ہم نے کینیڈا کی امیگریشن بھی اپلائی کی ہوئی ہے ،جس کے لیے بھی پاسپورٹ میں ولدیت میں میرا نام درج ہونا لازمی شرط ہے، ورنہ ہم بچے کو لے کر بیرون ملک نہیں جا سکتے۔
اس لیے ہمیں آپ کی راہ نمائی چاہیے کہ اگر ہم اپنے خاندان اور بچےکو پہلے دن سے سچ بتائیں لیکن صرف سعودی ویزے اور کینیڈا امیگریشن کی وجہ سے اول دن سے ہی بچے کے تمام کاغذات میں سرپرست کی نیت سے والد کی جگہ میرا نام لکھوائیں تو کیا یہ صحیح ہوگا یا نہیں؟
واضح رہے کہ ویزااوراسی طرح کے دیگرضروری کاغذات میں ولدیت کے کالم میں بچے کے حقیقی والد کا نام لکھنا ضروری ہے، اس لیے کہ ولدیت کےکالم میں جونام درج ہواس سےحقیقی والد ہی کی شناخت ہوتی ہے،اور حقیقی والد کو چھوڑ کر کسی دوسرے شخص کی طرف نسبت کرنا شرعاً جائز نہیں،البتہ اگرولدیت کے کالم کے بجائے سرپرست کے کالم میں گود لینے والے کا نام لکھا جائےتواس کی گنجائش ہے،اور اگر سرپرست کا کالم نہیں ہے تب بھی ولدیت والے کالم میں سرپرست کی نیت سے حقیقی والدکےعلاوہ کسی اورکانام لکھواناجائزنہیں ہوگا۔
لہذاصورت مسئولہ میں جب سائل اپنے تمام خاندان والوں کواوراسی طرح گودلیے ہوئے بچےکوبھی یہ بات بتائے گاکہ آپ کاحقیقی والد میں نہیں بلکہ فلان ہےتواس صورت میں بچہ گودلینےکی گنجائش توہوگی،لیکن کاغذات میں اس کی ولدیت میں اپنا نام درج کرانےکی بالکل گنجائش نہیں ہوگی۔
کنز العمال میں ہے:
"من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام."
(كتاب الدعوى، باب دعوى النسب، ج:6، ص:119، رقم الحديث:15304، ط:مؤسسة الرسالة)
ترجمہ:”جس نے کسی غیر باپ کی طرف اپنے کو منسوب کیا حالانکہ اس کوعلم ہے کہ وہ اس کاباپ نہیں توجنت اس پر حرام ہے“۔
(کنز العمال مترجم، ج:6، ص:510، ط:دارالاشاعت)
روح المعانی میں ہے:
"ويعلم من الآية أنه لا يجوز انتساب الشخص إلى غير أبيه وعد ذلك بعضهم من الكبائر لما أخرج الشيخان وأبو داؤد عن سعد بن أبي وقاص أن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم قال : من إدعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غیر أبيه فالجنة عليه حرام."
(سورۃ الأحزاب، ج:21، ص:149، ط: دار إحياء التراث العربي)
تفسیرمظہری میں ہے:
"وَما جَعَلَ الله أَدْعِياءَكُمْ أي الذين تبنيتهم، جمع دعي على الشذوذ ... أَبْناءَكُمْ فلا يثبت بالتبني شىء من أحكام البنوة من الإرث وحرمة النكاح وغير ذلك."
(سورة الأحزاب، ج:7، ص:283، ط:مكتبة الرشيدية)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"(وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - (لا ترغبوا) : أي: لا تعرضوا (عن آبائكم) : أي: عن الانتماء إليهم (فمن رغب عن أبيه) : أي: وانتسب إلى غيره (فقد كفر) : أي قارب الكفر، أو يخشى عليه الكفر. في النهاية: الدعوة بالكسر في النسب، وهو أن ينتسب الإنسان إلى غير أبيه وعشيرته، وكانوا يفعلونه فنهوا عنه، والادعاء إلى غير الأب مع العلم به حرام، فمن اعتقد إباحته كفر لمخالفة الإجماع، ومن لم يعتقد إباحته فمعنى (كفر) : وجهان، أحدهما: أنه أشبه فعله فعل الكفار، والثاني: أنه كافر نعمة الإسلام. قال الطيبي: ومعنى قوله: فالجنة عليه حرام على الأول ظاهر، وعلى الثاني تغليظ (متفق عليه) . ولفظ ابن الهمام: "من ادعى أبا في الإسلام غير أبيه، وهو يعلم أنه غير أبيه، فالجنة عليه حرام) : وأما لفظ الكتاب فمطابق لما في الجامع الصغير."
(کتاب النکاح، باب اللعان، ج:5، ص:2170، ط: دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603101850
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن