بیٹے پر والدین کے کیا حقوق ہیں؟ اور شوہر پر بیوی کا اور بیوی پر شوہر کا اور والد پر بچوں کے کیا حقوق ہیں؟
واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نے اولاد کو والدین کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے برتاؤ کا حکم کیاہے،اور اولاد پر والدین کے ادب و احترام لازم قرار دیاہے ،والدین کو راحت رسانی میں ہر ممکن کوشش کو لازم کیاہے،اور والدین کو کسی بھی طرح تکلیف دینے سے دور رہنا ضروری ہے،والدین اگر فقیر ہو تو ان کا نان نفقہ بھی اولاد پر واجب کیاہے ۔
شوہر پر بیوی کے مندرجہ ذیل حقوق ہیں:
بیوی کے مقرر کردہ مہر بروقت ادا کرنا،نان نفقہ دینا، رہائش کی سہولت میسر کرنا، حسن معاشرت اختیار کرنا اور اس کو جہنم کی آگ سے بچانا ،اور اس کے حقوق زوجیت اداکرنا،اور اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہو تو ان کے درمیان عدل قائم کرنا۔
بیوی پر شوہر کے حقوق:
شوہر کے جائز حکم پر حسب استطاعت اطاعت کرنا، اگر جماع کا اہل ہو اور مہر معجل ادا کرچکاہو تو اپنے آپ کو شوہرکو جماع کے لیے تسلیم کرنا، شوہر کے غیر موجودگی میں اس کے عزت ،اولاد اور مال کا حفاظت کرنا، اچھی زندگی گزارنا شوہر کو تکلیف دینے سے دور رہنا،بیوی کو دین کی تعلیم دینا ،اور ادب سکھانا نافرمانی ظاہر ہونے کے وقت۔
والد پر بیٹے کا حقوق :
بیٹے کا اچھے معنی والا نام رکھنا،نسب سے انکار نہیں کرنا، اس کی تربیت وتعلیم میں کوتاہی نہ کرنا، بالغ ہونے تک اس کا نفقہ دینا اور شادی کے وقت اچھی شریف دین دار عورت سے شادی کرنا تاکہ اس سے نیک اولاد پیدا ہو،یہ بھی باپ پر بیٹے کا حق ہے،بیٹے کا باپ پر حق کے بارے میں ایک واقعہ مذکورہے،امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک شخص اپنے بیٹے کے ساتھ حاضر ہوا عرض کرنے لگا یہ میرا بیٹا میرا نافرمان ہے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بچے سے فرمایا بیٹا!تو اپنے والد کا نافرمان ہے کیا تجھے خداخوفی نہیں ہے،تمہیں پتا نہیں کہ والد کے یہ ،یہ حقوق ہیں ؟بچے نے امیر المؤمنین کی خدمت میں عرض کی حضور کیا والد کے ذمہ بھی کوئی حقوق ہیں ؟حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں والد کے ذمہ سب سے پہلا حق یہ ہے کہ وہ کسی گھٹیاعورت سے شادی نہ کرے تاکہ اس عورت کی وجہ سے بچہ کو شرم ساری کا منہ نہ دیکھناپڑے،بچہ کے نام کا نتخاب کرتے وقت اچھے بامعنی اور خوبصورت نام کو منتخب کرے،بیٹے کو قرآن پاک کی تعلیم سے آراستہ کرے۔
بیٹا عرض کرنے لگااے امیرالمؤمنین ! نہ تو میرے والد نے میری ماں کا انتخاب کرتے وقت میرے حق کا خیال رکھابلکہ ایک لونڈی کو چار سو درہم میں خریدکر اس سے شادی کرلی،نہ ہی میرا نام منتخب کرتے وقت اچھے نام کو منتخب کیا، بلکہ میرا نام "جعل" رکھا(جعل کا معنی غلیظ کیڑاگبریلا)اور نہ ہی اللہ تعالی کے پاک کلام قرآن پاک سے مجھے ایک آیت ہی سکھائی ہے ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے او خدا کے بندے ! تو یہ شکایت کرتاہے کہ میرا بیٹا میرا نافرمان ہے میرے حقوق کی پاسداری نہیں کرتا، حالاں کہ پہلے تو تونے اس کی حق تلفی کی ہے ،اٹھ نکل جاؤ یہاں سے۔(تنبہ الغافلین)
قرآن مجید میں ہے:
"وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعۡبُدُوٓاْ إِلَّآ إِيَّاهُ وَبِٱلۡوَٰلِدَيۡنِ إِحۡسَٰنًاۚ إِمَّا يَبۡلُغَنَّ عِندَكَ ٱلۡكِبَرَ أَحَدُهُمَآ أَوۡ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَآ أُفّٖ وَلَا تَنۡهَرۡهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوۡلٗا كَرِيمٗا ٢٣ وَٱخۡفِضۡ لَهُمَا جَنَاحَ ٱلذُّلِّ مِنَ ٱلرَّحۡمَةِ وَقُل رَّبِّ ٱرۡحَمۡهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرٗا."
ترجمہ: اور تیرے رب نے حکم کردیاہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو اور تم اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیاکرو اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں سو ان کو کبھی (ہاں ) ہوں بھی مت کرنا اور نہ ان جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعاکرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیےجیسا انہوں نے مجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا،
مشکاةالمصابیح میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لو كنت آمر أحداً أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها. رواه الترمذي."
(کتاب النکاح، باب عشرة النساء،الفصل الثانی، ج:2، ص:972، ط:المكتب الإسلامي بيروت)
"ترجمہ: رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: اگر میں کسی کو یہ حکم کرسکتا کہ وہ کسی (غیر اللہ) کو سجدہ کرے تو میں یقیناً عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔"
وفیه ایضاً:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي وإذا مات صاحبكم فدعوه."
(كتاب النكاح، باب عشرة النساء، الفصل الثاني، ج:2، ص:971، ط:المكتب الإسلامي بيروت)
ترجمہ:رسول کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے اہل کے حق میں تم میں بہترین ہوں۔"
وفیه أیضا:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: المرأة إذا صلت خمسها وصامت شهرها وأحصنت فرجها وأطاعت بعلها فلتدخل من أي أبواب الجنة شاءت . رواه أبو نعيم في الحلية."
(كتاب النكاح، باب عشرة النساء، الفصل الثاني، ج:2، ص:971، ط:المكتب الإسلامي بيروت)
"ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جس عورت نے (اپنی پاکی کے دنوں میں پابندی کے ساتھ) پانچوں وقت کی نماز پڑھی، رمضان کے (ادا اور قضا) روزے رکھے، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی اور اپنے خاوند کی فرماں برداری کی تو (اس عورت کے لیے یہ بشارت ہےکہ) وہ جس دروازہ سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔"
سنن ابن ماجہ میں ہے:
"عن أبي أمامة، أن رجلا قال: يا رسول الله، ما حق الوالدين على ولدهما؟ قال: هما جنتك ونارك."
(كتاب الأدب، باب برالوالدين، ج:2، ص:1208، ط: دارإحياء الكتب العربية)
ترجمہ:"ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سےدریافت کیا : اولاد پر ماں باپ کا کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ دونوں تیری جنت یا دوزخ ہیں" یعنی ان کی اطاعت و خدمت جنت میں لے جاتی ہے اور ان کے ساتھ بدسلوکی جہنم میں لے جاتی ہے۔"
صحیح مسلم میں ہے:
"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رجل: يا رسول الله! من أحق الناس بحسن الصحبة؟ قال: "أمك" ثم أمك. ثم أمك. ثم أبوك. ثم أدناك أدناك."
(كتاب البر والصلة و الآداب، باب برالوالدين و أيهما أحق به، ج: 8، ص: 2، ط:دار الطباعة العامرة تركيا)
ترجمہ:" حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ بہتر سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟فرمایاتمہاری ماں ،پھر تمہاری ماں ،پھر تمہاری ماں پھر تمہارا باپ،پھر جو تم سے (رشتہ داری میں )قریب ہو ،پھر جو تم سے قریب ہو۔"
الترغيب و الترهيب للمنذری میں ہے:
"وعن عائشة رضي الله عنها قالت: سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم أي الناس أعظم حقا على المرأة قال: زوجها قلت: فأي الناس أعظم حقا على الرجل قال: أمه."
(كتاب النكاح وما يتعلق به، ج: 3، ص: 34، ط:دار الكتب العلمية بيروت)
"ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایاکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ عورت پر لوگوں میں سب سے زیاہ حق کس کا ہے ،تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: اس کے شوہر کا ،پھر میں نے پوچھا کہ مرد پر لوگوں میں سب سے زیادہ حق کس کا ہے تو آپ علیہ السلام نے فرمایاکہ اس کی ماں کا۔"
الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:
"حقوق الزوجة : للزوجة حقوق مالية وهي المهر والنفقة، وحقوق غير مالية: وهي إحسان العشرة والمعاملة الطيبة، والعدل."
(القسم السادس، الباب الأول، الفصل السابع، المبحث الاول،9/ 6842، ط: دار الفکر)
وفیھاایضاً:
"طاعة الزوجة لزوجها في الاستمتاع والخروج من المنزل: فإذا تزوج رجل امرأة، وكانت أهلاً للجماع وجب تسليمها نفسها بالعقد إذا طلب، ويجب عليه تسلمها إذا عرضت عليه؛ لأنه بالعقد يستحق الزوج تسليم العوض."
(القسم السادس، الباب الأول، الفصل السابع،المبحث الثانی،9/ 6850، ط: دار الفکر)
وفیھاایضاً:
"الأمانة: على الزوجة أن تحفظ غيبة زوجها في نفسها وبيته وماله وولده.
المعاشرة بالمعروف: يجب على المرأة معاشرة الزوج بالمعروف من كف الأذى وغيره، كما عليه معاشرتها بالمعروف، لقوله عليه الصلاة والسلام: «لا تؤذي امرأة زوجها في الدنيا إلا قالت زوجته من الحور العين: لا تؤذيه، قاتلكِ الله، فإنما هو عندكِ دخيل، يوشك أن يفارقك إلينا» وقال صلى الله عليه وسلم: «ما تركت بعدي فتنة هي أضر على الرجال من النساء.
حق التأديب : للزوج الحق في تأديب زوجته عند نشوزها أو عصيانها أمره بالمعروف لا في المعصية.
(القسم السادس، الباب الأول، الفصل السابع،المبحث الثانی، 6854/9، ط: دار الفکر)
وفیھاایضاً:
"ومنع الشرع الآباء من إنكار نسب الأولاد، وحرم على النساء نسبة ولد إلى غير أبيه الحقيقي."
(الباب الثالث،الفصل الاول،10/ 7245، ط: دارالفکر)
تنبہ الغافلین میں ہے:
عن عمر۔رضی اللہ عنه۔أن رجلاً جاء إلیه بابنه، فقال: إن ابنی ھذا یعقّنی، فقال عمر۔رضی اللہ عنه۔للابن: أما تخاف اللہ فی عقوق والدک، فإن من حق الوالد کذا، ومن حق الوالد کذا، فقال الابن: یاأمیرالمؤمنین أما للابن علی والدہ حق؟ قال: نعم، حقّه علیه أن یستنجب أمه، یعنی لایتزوّج امرأۃ دنیئة، لکیلا یکون للابن تعییر بھا، قال: ویحسن اسمه، ویعلمه الکتاب، فقال الابن: فواللہ ما استنجب أمی، وماھی إلا سندیة اشتراھا بأربع مائة درھم، ولاحسن اسمی، سمانی جعلاً۔ذکر الخفاش۔ ولاعلّمنی من کتاب اللہ آیة واحدة فالتفت عمر۔رضی اللہ عنه۔إلی الأب، وقال: تقول :ابنی یعقنی، فقد عقققته قبل أن یعقّک، قم عنی.
(باب حق الولد علی الوالد، ص: 95، ط: مکتبة الإیمان)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144507101245
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن