بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

والدین کی رضامندی کے بغیر غیر کفو میں کم مہر پر نکاح کرلینا


سوال

ایک لڑکی نے موبائل پر دوستی کر کے کالج جاتے ہوئے کالج کے ایک لڑکے کے ساتھ وہ سکھر چلی گئی اور وہاں کورٹ سے غیر کفو میں اور والدین کی رضامندی کے بغیر ، قلیل مہر کے ساتھ، غیر برادری میں یعنی دوسرے قوم میں نکاح کر لیا،  لڑکے والے سندھی ہیں اور لڑکی والے مہاجر ہیں ان دونوں قوموں کے درمیان آپس میں نکاح کا بھی رواج نہیں ہے اور معیوب سمجھا جاتا ہے اور تعلیم کے اعتبار سے بھی کفو نہیں ہے،  کیوں کہ لڑکی تیرھویں کلاس میں پڑھ رہی ہے اور لڑکا نو  کلاس تک پڑھا ہے اور مہر بھی صرف آدھا تولہ ہے،  جب کہ ہماری برادری میں مہر 10 تولے، 8 ٹولے  اور  5 تولے  تک  مقرر ہوتا ہے،  اب چوں  کہ لڑکی کے والدین بھی راضی نہیں ہیں اور نہ ہی برادری اور مہر بھی بہت کم ہے اور کفو بھی نہیں ہے،  اس مذکورہ صورتحال کے پیش نظر یہ نکاح منعقد ہوگا یا نہیں؟ شرعی اعتبار سے اس کی وضاحت فرما دیں۔

جواب

واضح رہے کہ عاقلہ  بالغہ لڑکی کے لیے مستحب ہے کہ وہ اپنے نکاح کی ذمہ داری اپنے ولی کے سپرد کرے، والدین کی اجازت اور رضامندی کے بغیر گھر سے بھاگ کر  نکاح کرنا شرعاً، عرفاً اور اخلاقاً نہایت نامناسب عمل ہے،  جس سے گریز کرنا چاہیے، تاہم اگر کسی عاقلہ بالغہ  لڑکی نے والدین کی مرضی کے بغیر شرعی ضابطہ کے مطابق گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کرکے  نکاح کرلیا،  تو یہ  نکاح شرعًا منعقد ہوجائے گا ۔

البتہ لڑکی نے اپنے  ولی کی اجازت کے بغیر    اگرغیر کفو  میں نکاح کیا ہو، یا  اپنے مہرِ مثل سے بہت کم مہر پر نکاح کیا  ہو، تو   اولاد ہونے یا حمل ظاہر ہونے سے پہلے پہلے لڑکی کے اولیاء کو کسی مسلمان جج کی   عدالت سے  رجوع کرکے اس نکاح کو فسخ کرانے کا  اختیار ہوگا، اور اگر کفو  میں اور مہر مثل پر  نکاح کیا ہو،  یا لڑکی نے مہر مثل سے کم مہر پر نکاح کیا ہو لیکن شوہر نے مہر بڑھا کر اسے مہر مثل کے بقدر کردیا ہو یا اس نکاح کے بعد اولاد پیدا ہوگئی ہو، یا حمل ظاہر ہوگیا ہو توپھر لڑکی کے اولیاء   کو  نکاح  فسخ کرانے کا اختیار نہیں ہوگا۔کفو کا مطلب یہ ہے کہ  لڑکا دین،دیانت، مال ونسب، پیشہ اور تعلیم میں لڑ کی کے ہم  پلہ ہو ، اس سے کم نہ ہو، اور مہر مثل سے مراد  لڑکی کے باپ کے خاندان کی وہ لڑکیاں جو مال، جمال، دین، عمر، عقل، زمانہ، شہر، باکرہ یا ثیبہ وغیرہ  ہونے میں اس کے برابر ہوں، ان کا جتنا مہر  تھا اس جتنا مہر ، مہر مثل ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ لڑکی کا  لڑکے کے ساتھ بھاگ کر ، والدین کی اجازت کے بغیر نکاح کرلینے کا عمل نامناسب اور غلط تھا،  تاہم اگر لڑکی عاقلہ بالغہ ہے اور کورٹ میں شرعی گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کرکے اس نے نکاح کرلیا ہے تو یہ نکاح منعقد ہوگیا ہے، اب اگر   لڑکا، لڑکی کا کفو نہیں ہے،اور مہر بھی   مہر مثل سے بہت کم طے ہوا ہے، اور ابھی تک کوئی اولاد نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی حمل ظاہر ہوا ہو تو  مذکورہ لڑکی کے اولیاء کو عدالت سے رجوع کرکے نکاح فسخ کرانے کا حق حاصل ہے، عدالت سے نکاح فسخ کرائے بغیر نکاح ختم نہیں ہوسکے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(فنفذ نكاح حرة مكلفة  بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا(وله) أي للولي (إذا كان عصبة) ولو غير محرم كابن عم في الأصح خانية، وخرج ذوو الأرحام والأم والقاضي (الاعتراض في غير الكفء) فيفسخه القاضي ويتجدد بتجدد النكاح (ما لم) يسكت حتى (تلد منه) لئلا يضيع الولد وينبغي إلحاق الحبل الظاهر به.

(قوله في غير الكفء) أي في تزويجها نفسها من غير كفء، وكذا له الاعتراض في تزويجها نفسها بأقل من مهر مثلها، حتى يتم مهر المثل أو يفرق القاضي كما سيذكره المصنف في باب الكفاءة."

(کتاب النکاح ، باب الولی، 3/ 55، ط: سعید)

وفيه ايضاّ:

"(ولو نكحت بأقل من مهرها فللولي) العصبة (الاعتراض حتى يتم) مهر مثلها (أو يفرق) القاضي بينهما دفعا للعار.

(قوله :بأقل إلخ) أي بحيث لا يتغابن فيه وقدمنا تفسيره في الباب السابق (قوله فللولي العصبة) ... (قوله الاعتراض) أفاد أن العقد صحيح. وتقدم أنها لو تزوجت غير كفء. فالمختار للفتوى رواية الحسن أنه لا يصح العقد، ولم أر من ذكر مثل هذه الرواية هنا، ومقتضاه أنه لا خلاف في صحة العقد، ولعل وجهه أنه يمكن الاستدراك هنا بإتمام مهر المثل، بخلاف عدم الكفاءة والله تعالى أعلم.

(قوله: أو يفرق القاضي) في الهندية عن السراج، ولا تكون هذه الفرقة إلا عند القاضي، وما لم يقض القاضي بالفرقة بينهما فحكم الطلاق والظهار والإيلاء والميراث باق اهـ (قوله دفعا للعار) أشار إلى الجواب عن قولهما ليس للولي الاعتراض. لأن ما زاد على عشرة دراهم حقها ومن أسقط حقه لا يعترض عليه ولأبي حنيفة أن الأولياء يفتخرون بغلاء المهور ويتعيرون بنقصانها فأشبه الكفاءة بحر والمتون على قول الإمام."

(كتاب النكاح، باب الكفاءة، 3/ 94، ط: سعيد)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض."

 (کتاب النکاح، فصل ولایه الندب والاستحباب فی النکاح، 2/ 247، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - آخراً، وقول محمد - رحمه الله تعالى - آخراً أيضاً، حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك، ولكن للأولياء حق الاعتراض ... وفي البزازية: ذكر برهان الأئمة أن الفتوى في جواز النكاح بكراً كانت أو ثيباً على قول الإمام الأعظم، وهذا إذا كان لها ولي، فإن لم يكن صح النكاح اتفاقاً، كذا في النهر الفائق. ولا يكون التفريق بذلك إلا عند القاضي أما بدون فسخ القاضي فلا ينفسخ النكاح بينهما."

(کتاب النکاح، الباب الخامس فی الأکفاء فی النکاح، 1/ 292، ط: رشیدیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144606102529

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں