ایک شخص کی منگنی ہوئی اور اس شخص نے منگنی کے بعد اپنی منگیتر پر مختلف قسم کی پابندیاں بھی لگائیں کہ گھر سے باہر نہیں جانا اور جاب پر نہیں جانا اور موبائل کا استعمال بھی منع کر دیا، الغرض مختلف قسم کی پابندیاں اس نے اپنی منگیتر پر لگائیں، لیکن جب نکاح کی تاریخ طے کرنے کا وقت آیا تو اس شخص کے والد نے بچے سے یہ کہا کہ یا تو تم اس لڑکی کو اپنا لو یا مجھے اپنا لو (یعنی والد کا مطلب یہ تھا یا تو اس لڑکی سے نکاح کر کے مجھے چھوڑ دو اور اگر میری بات مانتے ہو تو اس لڑکی سے نکاح مت کرو) جبکہ منگنی والدین کی رضامندی سے ہوئی تھی اور منگنی کے بعد تقریبا پانچ سے چھ ماہ کا وقت بھی گزر گیا ہے۔
اب پوچھنا اس میں یہ ہے کہ اگر یہ لڑکا اس لڑکی سے نکاح کرتا ہے تو آیا یہ لڑکا اپنے والد کا نافرمان کہلائے گا یا نہیں؟ اور کیا اس کے والد کو شرعی طور پر یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے بیٹے سے اس قسم کے مطالبات کرے؟ راه نمائی فرمائيں۔
منگنی نکاح کا وعدہ ہے اور بغیر کسی شرعی اور معقول عذرکے وعدہ اورمعاہدہ کوتوڑنا شرعاً اور اخلاقاً انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے، حدیث شریف میں ہے کہ اس شخص کا کوئی دین نہیں جس میں عہد کی پاس داری نہیں۔ البتہ اگر کوئی شرعی عذر ہو تو منگنی توڑنا جائز ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں والدین نے رضامندی سے بیٹے کی جہاں منگنی کروائی ہے، اب والدصاحب اگر بلاوجہ اس منگنی کو تو ڑنا چارہے ہیں، تو بیٹے کےلیے اس منگنی کو توڑنا جائز نہیں ہے اور اس صورت میں بیٹانافرمان نہیں کہلائے گا، البتہ جس لڑکی سے منگنی ہو ئی ہے، اگرخدانخواستہ وہ بدچلن، بدزبان ہےیا اورکوئی شرعی عذر کی وجہ سے والد صاحب منگنی توڑنا چاہ رہے ہوں تو منگنی تو ڑنا جائز ہے اور بیٹے پر بھی لازم ہے کہ وہ والد صاحب کی اطاعت کرے ،اور اگر ایسی کوئی بات نہ ہو تو پھر والد صاحب کی اطاعت کرنا لازم نہیں ہے اور والد صاحب کے لیے اس طرح کا مطا لبہ بیٹے سے کرنا جائز نہیں ہے۔
قرآن میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
"وَأَوْفُوْا بِٱلْعَهْدِ إِنَّ ٱلْعَهْدَ كَانَ مَسْـُٔولًا."[الإسراء: 34]
ترجمہ :"اور عہد کو پورا کیا کرو ، بے شک عہد کی باز پرس ہونے والی ہے ۔"
(بیان القرآن : 2 / 376 ، ط : رحمانیہ )
حدیث شریف میں آتا ہے:
"عن أنس بن مالك قال ما خطبنا نبي الله صلى الله عليه وسلم إلا قال " لا إيمان لمن لا أمانة له، ولا دين لمن لا عهد له."
ترجمہ:"آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ جس شخص میں امانت کی پاسداری نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جس شخص میں وعد ہ کی پاسداری نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں۔"
(مسند احمد، ص:376،ج:19، ط:مؤسسة الرسالة)
صحيح البخاری میں ہے :
"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" آية المنافق ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان."
ترجمہ :آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو خلاف ورزی کرتا ہے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے۔
(كتاب الإيمان، باب علامة المنافق، ج:1،ص: 16، ط : السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية، ببولاق مصر)
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے
"عن معاذ قال: «أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات، قال: " لاتشرك بالله شيئًا، وإن قتلت وحرقت، ولاتعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك (ولاتعقن والديك) أي تخالفنهما، أو أحدهما فيما لم يكن معصية إذ لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق
(كتاب الإيمان،باب الكبائر وعلامات النفاق ،ج:1،ص132،ط :دار الفكربيروت)
فتاوٰی رحیمیہ میں ہے:
"منگنی یعنی شادی کرنے کا وعدہ اور قول و قرار اس پر دونوں جماعتوں کا قائم رہنا ضروری ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے"وأوفوا بالعهد إن العهد كان مسئولا"یعنی اور عہد (قول و قرار) پورے کرتے رہو، بے شک عہد کے متعلق پرسش ہونے والی ہے۔( سورۃ بنی اسرائیل )
لہذا کسی شرعی سبب کے بغیر قول و قرار سے پھر جانا اور دو سال تک امید دلا کر پھر انکار کردینا گناہ کا کام ہے، برادری کے ذمہ دار لوگوں کا فرض ہے کہ رشتہ کرنے کی پوری کو شش کریں۔
(متفرقات نکاح،ج:8،ص:248،ط:دار الاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603101883
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن