بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

والد کے انتقال کے بعد دس سالہ بچے کی پرورش کا حق دار کون ہے؟


سوال

مجھے میرے سابقہ شوہر نے 9/9/2015کو طلاق دی تھی ،جس وقت میرے بیٹے کی عمر ایک سال تھی، عدت کے بعد میری دوسری شادی ہوگئی تو میرا بیٹا اپنے والد کی سرپرستی میں چلا گیا، اس وقت اس کی عمر  دو سال تھی، اب 10/7/2024کو اس کے والد کا انتقال ہوگیا ہے اوروہ اپنی دادی کی   سرپرستی میں ہے،گزشتہ آٹھ سال سے میرا  اور میرے بیٹے کاکوئی تعلق نہیں ہونے دیا،اب جب کہ اس کےوالد حیات نہیں ہیں تو میں اپنے بیٹے کو اپنی سرپرستی میں لینا چاہتی ہوں، اب میرے بیٹے کی عمر دس سال ہے ،برائےمہر بانی قرآن کی رو سے ہمیں بتائیں کہ اب میں اپنے بیٹے کو اپنے پاس رکھ سکتی ہوں یا نہیں ؟اور اگر اس کے ددھیال والے زبردستی اپنے پاس رکھنا چاہیں  تو میں کیا کرسکتی ہوں کہ وہ میرے پاس رہے؟راہ نمائی فرمائیں ۔ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں لڑکے کی عمردس سال ہونے کی صورت میں اس کی پر ورش کا حق اس کے والد کو حاصل تھا ،اب چوں کہ والدانتقال کرگیاہے، لہذا اب اس کی ذمہ پرورش کاحق اس کے دادا کو حاصل ہوگا، اگر دادا نہ ہو تو چچا کو یہ حق حاصل ہوگا،یہاں تک کہ بچہ بالغ ہوجائے،بلوغت کےبعدبچےکواختیارہوگاکہ وہ ماں کےساتھ رہےیا چچاکےساتھ،  جہاں رہناچاہےاس کواختیار ہوگا۔نیز چچا  کی پرورش کےدوران ماں کو اپنے بچے سے  ملنے  کا حق حاصل ہے ،ماں کوبچے سے نہ  ملنے  دینا ظلم ہے اس پر ددھیال والے گنا ہ گار ہوں گے،ددھیال والوں پر لازم ہے کہ وہ ماں کو اپنے بچے سےملنےسےنہ روکیں ، اگر وہ پھربھی ماں کو بچے سے  نہ     ملنےدیں تو اس صورت  میں سائلہ   عدالت سے مدد طلب کرسکتی ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما وقت الحضانة التي من قبل النساء فالأم والجدتان أحق بالغلام حتى يستغني عنهن فيأكل وحده ويشرب وحده ويلبس وحده كذا ذكر في ظاهر الرواية، وذكر أبو داود بن رشيد عن محمد ويتوضأ وحده يريد به الاستنجاء أي ويستنجي وحده ولم يقدر في ذلك تقديرا وذكر الخصاف سبع سنين أو ثمان سنين أو نحو ذلك.وأما الجارية فهي أحق بها حتى تحيض كذا ذكر في ظاهر الرواية وحكى هشام عن محمد حتى تبلغ أو تشتهي.وإنما اختلف حكم الغلام والجارية؛ لأن القياس أن تتوقت الحضانة بالبلوغ في الغلام والجارية جميعا؛ لأنها ضرب ولاية ولأنها ثبتت للأم فلا تنتهي إلا بالبلوغ كولاية الأب في المال إلا أنا تركنا القياس في الغلام بإجماع الصحابة رضي الله عنهم لما روينا أن أبا بكر الصديق رضي الله عنه قضى بعاصم بن عمر لأمه ما لم يشب عاصم أو تتزوج أمه وكان ذلك بمحضر من الصحابة رضي الله عنهم ولم ينكر عليه أحد من الصحابة فتركنا القياس في الغلام بإجماع الصحابة رضي الله عنهم فبقي الحكم في الجارية على أصل القياس؛ ولأن الغلام إذا استغنى يحتاج إلى التأديب والتخلق بأخلاق الرجال وتحصيل أنواع الفضائل واكتساب أسباب العلوم والأب على ذلك أقوم وأقدر مع ما أنه لو ترك في يدها لتخلق بأخلاق النساء وتعود بشمائلهن وفيه ضرر."

(كتاب الحضانة، فصل في وقت الحضانة،ج: 4،ص:42،،  ط:دار الکتب العلمیة)

وفیه أیضاً:

"وأما التي للرجال فأما وقتها فما بعد الاستغناء في الغلام إلى وقت البلوغ وبعد الحيض في الجارية إذا كانت عند الأم أو الجدتين وإن كانا عند غيرهن فما بعد الاستغناء فيهما جميعا إلى وقت البلوغ.....وأما شرطها فمن شرائطها العصوبة فلا تثبت إلا للعصبة من الرجال ويتقدم الأقرب فالأقرب الأب ثم الجد أبوه وإن علا ثم الأخ لأب وأم ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب وأم ثم ابن الأخ لأب ثم العم لأب وأم ثم العم لأب ثم ابن العم لأب وأم ثم ابن العم لأب."

(كتاب الحضانة، فصل في وقت الحضانة، ج:4،ص:43،، ط: دار الکتب العلمیة)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وبعدما استغنى الغلام وبلغت الجارية فالعصبة أولى يقدم الأقرب فالأقرب كذا في فتاوى قاضي خان. ويمسكه هؤلاء إن كان غلاما إلى أن يدرك فبعد ذلك ينظر إن كان قد اجتمع رأيه وهو مأمون على نفسه يخلى سبيله فيذهب حيث شاء، وإن كان غير مأمون على نفسه فالأب يضمه إلى نفسه ويوليه ولا نفقة عليه إلا إذا تطوع كذا في شرح الطحاوي.والجارية إن كانت ثيبا وغير مأمونة على نفسها لا يخلى سبيلها ويضمها إلى نفسه، وإن كانت مأمونة على نفسها فلا حق له فيها ويخلى سبيلها وتنزل حيث أحبت كذا في البدائع.وإن كانت البالغة بكرا فللأولياء حق الضم، وإن كان لا يخاف عليها الفساد إذا كانت حديثة السن وأماإذا دخلت في السن واجتمع لها رأيها وعفتها فليس للأولياء الضم ولها أن تنزل حيث أحبت لا يتخوف عليها كذا في المحيط."

(کتاب الطلاق، الباب السادس عشر في الحضانة، ج:1،ص:543، ط:دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الولد متى كان عند أحد الأبوين لايمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده، كذا في التتارخانية ناقلاً عن الحاوي."

( كتاب الطلاق ،باب الحضانة، ج:1،ص:535، ط: رشیدیة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144604100311

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں