1۔ہمارے والدصاحب کا کارخانہ تھا ،اس میں ہم چاروں بھائی مشترکہ کام کرتے تھےوالدکےانتقال کے بعد کمائی نفع ونقصان اورگھر کاخرچہ وغیرہ سب مشترکہ تھا ،ہمارے بڑے بھائی ہی ہم سب کے نگران تھے اور اسی نے ہی ہماری شادیاں کروائیں ،بڑے بھائی نے ایک بھائی کو مشترکہ رقم سے گھر خرید کردیااور دوسرے بھائی کو بھی مشترکہ رقم سےخرید کردیا اورسب کی اجازت سےمکمل قبضہ وتصرف کے ساتھ ان دونوں بھائیوں کو مالک بنادیا ،اورجس گھر میں ہم تینوں بھائیوں کی رہائش تھی، اس کےبارے میں بڑے بھائی کہتے تھے کہ یہ گھر ہمارے چھوٹے بھائی کا ہے ان میں سے ایک بھائی جو ہمارے ساتھ رہائش پذیر تھے ان کو الگ گھر لے کر دیاتھا ،اب جس گھر کے بارے میں کہا تھا کہ یہ چھوٹے بھائی کا ہے تو اس گھر کا مالک اب کون ہوگا ؟سب بھائی ہوں گے یا چھوٹا بھائی ،واضح رہے کہ مذکورہ گھر والدکی ملکیت تھا ۔
2۔ہمارے بڑے بھائی نے مشترکہ کمائی سے چار دوکانیں خریدیں ،ایک دوکان دو بھائیوں کے نام کرکے کو مکمل قبضہ وتصرف کےساتھ دے دی تھیں،البتہ اس کا کرایہ بڑےبھائی کے پاس آتا تھا،جس کو وہ مشترکہ طور پر خرچ کرتے تھے اور دوسری دوکان اپنے اورمیرے نام کی تھی اورکہا کرتے تھے کہ یہ دوکان میں اپنے چھوٹے بھائی (یعنی سائل)کو دوں گا ،اورمیں اس دوکان میں کام کرتا تھا کہ اچانک ان کا انتقال ہوگیا ،اب پوچھنایہ ہے کہ یہ مذکورہ دوکان میری ہوگی یا اس میں دیگر ورثاء بھی شریک ہوں گے ؟
3۔تیسری دوکان بڑے بھائی نے ایک اور بھائی کے نام کی تھی اس کا کرایہ بھی بڑے بھائی کے پاس آتا تھا اور چوتھی دوکان والدہ کے نام کرکےمکمل قبضہ وتصرف کےساتھ دے دی تھی پھر والدہ کا انتقال ہوااب پوچھنا یہ ہے کہ یہ دوکان کس کی ہوگی؟اورورثاء میں کس طرح تقسیم ہوگی؟
وضاحت :والد کے انتقال کے وقت ورثاءبیوہ چار بیٹے تھے، بیٹی کوئی نہیں تھی پھر والدہ کا انتقا ل ہوا ورثاء میں چار بیٹے تھے پھر بڑے بھائی کا انتقال ہو ا ان کے ورثاء میں ایک بیوہ اورتین بھائی ہیں مرحوم کی کوئی اولاد اوربہن نہیں ہیں ، پھر دوسرے بھائی کا انتقال ہوا ان کے ورثاء ایک بیوہ چاربیٹے،تین بیٹیاں ہیں۔
1۔صورت مسئولہ میں بڑے بھائی کامرحو م والد صاحب کے ترکہ کے گھر کو چھوٹے بھائی کو دینا جائز نہیں تھا ، اس لیے مذکورہ گھرچھوٹے بھائی کی ملکیت نہیں ہے ،بلکہ مذکورہ گھر مرحوم کے تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیاجائےگا ۔
3۔2۔واضح رہے کہ والد کے کاروبار میں اگر کوئی بیٹا معاون کے طور پر کام کرے تو والد کی وفات کے بعد وہ معاون بیٹا اس کاروبار کا مالک نہیں بنتا،بلکہ والد کا کاروبار تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم کیا جاتا ہے ۔
لہذا صورت مسئولہ میں جو کارخانہ آپ کے والد کا ہے اورچاروں بھائی بطورمعاون کام کررہےتھے،پھروالد صاحب کے انتقال کے بعد اس کاروبار سے جتنےمنافع حاصل ہوئے ہیں اورجو دوکانیں اورگھر خریدےہیں وہ سب مرحوم والدصاحب کا ترکہ میں شمارہوکرتمام ورثاء میں تقسیم کیاجائےگا۔
صورت مسئولہ میں سائل کے والد مرحوم کے ترکہ کی شرعی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ترکہ سے مرحوم کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالا جائے گا اس کے بعد اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہوتو اس کو ادا کیا جائے گا اس کے بعد اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہوتو اس کو باقی کل مال کے ایک تہائی حصہ سے نافذ کرنے کے بعد باقی کل جائیداد منقولہ وغیرمنقولہ کو 1408حصوں میں تقسیم کرکے440حصے مرحوم کے ہرایک بیٹےکو (جو حیات ہے)،88حصے مرحوم کےبڑے بھائی کی بیوہ کو ،55حصے مرحوم کے چھوٹے بھائی کی بیوہ کو،70حصےمرحوم کےہرایک پوتے(مرحوم بھائی کے بیٹے) کو،35حصےمرحوم کی ہر ایک پوتی (مرحوم بھائی کے بیٹی) کو ملیں گے۔
صورت تقسیم یہ ہے :
میت:( والد/والدہ)،مسئلہ :1408/16/4
بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا |
1 | 1 | 1 | 1 |
فوت شدہ | 4 | 4 | 4 |
فوت شدہ | فوت شدہ | 352 | 352 |
میت(بڑا بیٹا)،مسئلہ :4مف۔۔۔۔۔۔1
بیوہ | بھائی | بھائی | بھائی |
1 | 1 | 1 | 1 |
88 | فوت شدہ | 88 | 88 |
میت:(بیٹا ) ،مسئلہ :88/8مف۔۔۔۔۔۔۔5
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | ||||||
11 | 14 | 14 | 14 | 14 | 7 | 7 | 7 |
55 | 70 | 70 | 70 | 70 | 35 | 35 | 35 |
یعنی سوروپےمیں سے31.25حصے مرحوم کے ہرایک بیٹےکو ،6.25حصے مرحوم کےبڑے بھائی کی بیوہ کو ،3.906حصے مرحوم کے چھوٹے بھائی کی بیوہ کو،4.971حصےمرحوم کےہرایک پوتے کو ،2.485حصےمرحوم کی ہر ایک پوتی کو ملیں گے۔
درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم."
(الکتاب العاشر: ج3، ص26، رقم المادة :1073، ط: دار الجیل)
فتاوی شامی میں ہے:
" وكذا لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية، ولو اختلفوا في العمل والرأي اهـ وقدمنا أن هذا ليس شركة مفاوضة ما لم يصرحا بلفظها أو بمقتضياتها مع استيفاء شروطها، ثم هذا في غير الابن مع أبيه؛ لما في القنية الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له ألا ترى لو غرس شجرة تكون للأب."
(كتاب الشركة، فصل في الشركة الفاسدة، ج4، ص325، سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602101890
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن