بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

والدمرحوم کی وراثت میں ذاتی تصرف کرنےکی شرعی حیثیت


سوال

1:۔میرےوالدصاحب کاانتقال ہوا،بوقت وفات مرحوم کےچھ بیٹےاورچاربیٹیاں حیات تھیں جب کہ ایک بڑی بیٹی کامرحوم کی زندگی میں انتقال ہواہے۔

سوال یہ ہے کہ کیامرحوم کی اس بیٹی کوجوکہ مرحوم کی زندگی میں انتقال کرچکی ہے اسے یااس کی اولادکوحصہ ملےگا؟

2:۔والدمرحوم کےترکہ میں 47ایکڑزمین تھی،جس میں سے تین بیٹیوں نےسواآٹھ ایکڑزمین اپنی مرضی سے دیگرورثاءکی اجازت کےبغیرفروخت کردی ہے،جب کہ مذکورہ سواآٹھ ایکڑزمین مذکورہ بہنوں کےنام والدمرحوم نےکی تھی۔

سوال یہ ہے کہ کیاشریعت کےروسےان کایہ عمل درست تھایانہیں؟

اوربقیہ زمین میں ان کاحق بنتاہےیانہیں ؟اگربنتاہے توکتنابنتاہے؟

3:۔انتالیس ایکڑزمین میں چاربہنوں اوردوبھائیوں اورایک بھابھی نےبورنگ اورشمسی پلیٹ وغیرہ لگائی ہے،اوردیگرورثاءاس پرراضی تھے،جب کہ دیگرورثاءنےاس مد میں رقم نہیں ملائی تھی۔

سوال یہ ہے کہ کیابورنگ کاپانی اورشمسی بجلی اوراس سےحاصل ہونےوالے منافع میں دیگرورثاء کاحق بنتاہےیانہیں؟

جواب

1:۔واضح رہے کہ جس وارث کااپنےمورث کی حیات میں انتقال ہوجائےشرعی طورپراسے مورث کےترکہ میں سےحصہ نہیں ملتا،اوراگرمرحوم کی دیگرمذکرومؤنث اولادہوتواس صورت میں فوت شدہ وراث کی اولاد کوبھی کچھ نہیں ملتا،لہذاصورت مسئولہ میں جب آپ کےوالدمرحوم کی حیات ہی میں  آپ کی بہن کاانتقال ہوا،اورآپ کےوالدمرحوم کےورثاءمیں بیٹے بیٹیاں موجود ہیں   تو آپ کی مرحومہ بہن اوراس کی اولاد کووراثت میں سے حصہ نہیں ملےگا۔

2:۔اگرمذکورہ زمین سائل کےوالدمرحوم نےصرف اپنی بیٹیوں کےنام کی تھی،یعنی نہ ان کوکاغذات حوالےکئےتھے،اورنہ ہی مکمل قبضہ وتصرف ان کودیاتھاتوشرعی لحاظ سے مرحوم کی بیٹیاں سواآٹھ ایکڑزمین کی مالک نہیں بنیں،بلکہ بدستوراس  زمین  میں تمام ورثاء کاحق تھا،اب جب کہ سواآٹھ ایکڑزمین تین بیٹیوں نےفروخت کی ہےتوجب بھی  بقیہ  زمین ورثاء میں تقسیم ہو گی ،اتنی ہی زمین ان تینوں بیٹیوں کےحصوں سے منہاکردی  جائےگی،جس کی تفصیل فتوی نمبر144603101844میں مذکورہے۔

نیز بقیہ زمین سے ان کاحصہ ختم نہیں ہوابلکہ جب بھی مابقیہ  زمین ورثاء میں تقسیم ہو گی ان تین بیٹیوں کوبھی  ان کابقیہ حصہ ملےگا۔

3:۔جب تمام ورثاءکی دلی خوشی اوررضامندی سے چاربہنوں ،دوبھائیوں اورایک بھابھی نےبورنگ ،شمسی وغیرہ لگایاتواس کےجتنےبھی منافع حاصل ہوں گے وہ انہیں میں تقسیم ہوں گے،کسی اوروارث کااس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار."

(كتاب الهبة، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز، ج:4، ص:378، ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وقوله: بخلاف جعلته باسمك) قال في البحر: قيد بقوله: لك؛ لأنه لو قال: جعلته باسمك، لا يكون هبة؛ ولهذا قال في الخلاصة: لو غرس لابنه كرما إن قال: جعلته لابني، يكون هبة، وإن قال: باسم ابني، لا يكون هبة."

(كتاب الهبة، ج:5، ص:689، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604100128

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں