بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کا بیٹی کے گھر میں کھانا کھانے کا حکم


سوال

اگر بیوی کے والدین میں سے کوئی ان کے گھر آئے تو کیا بیٹی اپنے والدین کو اپنے شوہر کے گھر میں سے کھانا، پینا پیش کرسکتی ہے؟اس کا کیا حکم ہے؟

اس کے علاوہ بیٹی کے گھر میں اگر کوئی دعوت یا ضیافت کا اہتمام ہو تو کیا اس کے والدین کے لیے ان کےگھر میں کھانا کھاناجائز ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ شوہر کے مال میں سے خرچ کرنے کے لیے بیوی کو اس سے اجازت لینا ضروری ہے، اگر اجازت نہ ہو،تو نہ صرف یہ کہ اسے کوئی اجر نہیں ملے گا، بلکہ دوسرے کے مال میں بغیر اس کی اجازت کے تصرف کرنے کا گناہ ہوگا،اجازت کی دو قسمیں ہیں: ایک صریح اجازت اوردوسری عرف وعادت سے سمجھ میں آنے والی اجازت، مثلاً بیوی کا اپنے والدین کو کھلانا،کسی مانگنے والے کو روٹی کا ٹکڑا یا کوئی اور چیز دے دینا، جس کا عموماً چلن ہوتا ہے اور یہ عُرف میں شامل ہوتا ہے، اس معاملے میں عموماً شوہر کی اجازت ہوتی ہے، اس لیے صریح الفاظ میں اجازت لینے کی ضرورت نہیں، لیکن اگر کسی جگہ اس کا عُرف نہ ہو اور عورت کو شبہ ہو کہ پتہ نہیں شوہر کی رضامندی ہے یا نہیں، یا شوہر لالچی ہو اور صدقہ و انفاق کو پسند نہ کرتا ہو تو عورت کو صدقہ وخیرات کرنے کے لیے صاف الفاظ میں شوہر سے اجازت لینی ضروری ہے۔

صورتِ مسئولہ میں بیوی کےگھر اگر ان کے والدین میں سے کوئی آجائے تووہ اپنے شوہر کی اجازت سے ان کو کھانا، پینا پیش کرکے کھلا سکتی ہے، اسی طرح اگر بیٹی کے گھر میں کوئی دعوت یا ضیافت کا انتظام ہوتو اس کے والدین ان کے گھر جاکر کھانا وغیرہ بھی کھا سکتے ہیں، لہذا بعض علاقوں میں جہاں بیٹی کے گھر جاکرکھانا کھانے کو ناپسنداور معیوب سمجھا جاتا ہے، وہ درست نہیں ہے۔

سنن الترمذی میں ہے:

"عن أبي أمامة الباهلي قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم في خطبته عام حجة الوداع يقول: لا تنفق امرأة شيئا من بيت زوجها ‌إلا ‌بإذن ‌زوجها، قيل: يا رسول الله، ولا الطعام، قال: ذاك أفضل أموالنا."

(أبوب الزكاة، ‌‌باب في نفقة المرأة من بيت زوجها، ج:3، ص:48، ط:مكتبة مصطفى البابي الحلبي مصر)

ترجمہ:"حجۃ الوداع کے موقع پر نبی علیہ السلام نے فرمایا"کوئی عورت اپنے شوہر کے مال میں سے کچھ خرچ نہ کرے مگر شوہر کی اجازت سے" پوچھا گیا" عورت کھانا(غلہ) بھی شوہر کی اجازت کے بغیر خرچ نہیں کرسکتی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تو ہمارے گھروں کے اصل اموال ہیں۔"(تحفۃ الالمعی)

مسلم شریف میں ہے:

"عن عائشة رضي الله عنها قالت:قال النبي صلى الله عليه وسلم: (‌إذا ‌أطعمت ‌المرأة من بيت زوجها، غير مفسدة، لها أجرها، وله مثله."

(كتاب الزكاة، باب: أجر المرأة إذا تصدقت أو أطعمت من بيت زوجها غير مفسدة، ج:2، ص:522، ط:دار ابن كثير دار اليمامة دمشق)

ترجمہ:"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب عورت اپنے گھر کے اناج وغیرہ سے بغیر فساد کی نیت سے خرچ کرے تو اس کے خرچ کرنے کا اجر اُسے ملے گا، اور اس کے شوہر کو کمانے کا اجر ملےگا۔"(تحفۃ المنعم)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406100770

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں