بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1446ھ 26 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

والدین کی زندگی میں گھریلو استعمال کے لیےلائی ہوئی چیز کا حکم


سوال

1۔میں  مشترکہ گھر میں جب ہم بھائی والدین کے ساتھ رہتے تھے ،تو اس وقت کچھ سامان گھر میں استعمال کے لیے لایا تھا اور میں نے کسی کو ملکیت میں نہیں دیاتھا  ،اب پوچھنا یہ ہے کہ والدین  کے انتقال کے بعد وہ سامان میں خود لے سکتاہوں یا وراثت میں تقسیم ہو گا؟ یعنی میری ذاتی ملکیت کہلا ئے گا یا باقی سامان کی طرح وراثت میں تقسیم ہوگا ؟

2۔اسی طرح اگر والدین  کی حیات میں کچھ سامان والدین سے لے لیا ،اور والدین نے بھی کہا کہ لے لو،  یہ سب بات زبانی ہوئی اور وہ چیز سامان نہیں لیا ،کیا  اب والدین  کے انتقال کے بعد اب کوئی بھائی جس نے والدین کی حیات  میں لیا ہو ،اب ا س کو لے سکتاہے  یا وہ چیز  بھی وراثت میں تقسیم ہوگی ؟اور اگر کوئی بھائی یہ کہہ کرلے کہ یہ میں نے والدین سےلیا تھا اور ایک بھائی اس کا گواہ بن جائے، تو اس کا کیا حکم ہے کہ یہ لے سکتا ہے یا واپس کرے گا یا وراثت میں تقسیم ہوگا ؟

جواب

1۔صورت مسئولہ میں  سائل اپنے والدین کی زندگی میں  کچھ سامان گھر کے استعمال کے لیے لایا تھا،  کسی کو ملکیت میں نہیں دیا تھا ،تو وہ سامان بدستور  سائل کی ملکیت میں ہے، اس سامان کو والد ین کے ترکہ میں  شمار نہیں کیا جائے گا ،بلکہ وہ سامان سائل لینے کا حق دار ہے ۔

2۔واضح رہے کہ شرعی طورپر ہبہ (گفٹ) مکمل ہونے کے لیے  ہبہ کی جانے والی چیز اپنی ملکیت سے الگ کرکے موہوب لہ (جس کوہبہ کیاجارہاہے)کواس كا اس طرح قبضہ دیناضروری ہے کہ وہ اس میں اپنی مرضی سے آزادانہ طورپر تصرف کرسکے اوراگراس طرح کاقبضہ نہ دیاجائےتو ہبہ مکمل نہیں ہوتا،لہذا صورتِ  مسئولہ میں اگر والدین نے کسی بیٹے کو کہا کہ یہ سامان لے لو اور اس بیٹے نے وہ سامان اس وقت نہیں لیا تو  وہ سامان بدستور والدین کی ملکیت ہے ، جو اب ان کے انتقال کے بعد یہ سامان ترکہ میں شمار ہوکر ان کے تمام شرعی ورثاء میں تقسیم ہوگا ۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية."

(کتاب الھبة، الباب الثانی فیما یجوز من الھبة وما لایجوز، ج:4، ص:378، ط:مکتبة رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية."

(کتاب الھبة، ج:5، ص:690، ط:ایچ ایم سعید)

 الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:

"ولو قال الرجل: جميع مالي، أو جميع ما أملكه لفلان فهذا إقرار بالهبة ‌لا ‌يجوز ‌إلا ‌مقبوضة، وإن امتنع من التسليم لم يجبر عليه."

(كتاب الاقرار، ج:1، ص248،  ط،المطبعة الخيرية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601100588

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں