میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے، والد صاحب کے ترکہ میں تقریبًا انیس لاکھ کی رقم تھی، اس سے متعلق والد مرحوم نے وصیت کی تھی کہ یہ ساری رقم میرے بیٹےکی ہے جو مدرسہ میں پڑھتا ہے، مرحوم کے ترکہ میں اس رقم کے علاوہ بھی مال موجود ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ مرحوم والد کا اپنے بیٹے کےلیے وصیت کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اور یہ وصیت میں شمار ہوگا یا ترکہ میں؟
صورت مسئولہ میں والد مرحوم کی مذکورہ وصیت شرعاً معتبر نہیں ہے، لہذا مذکورہ رقم بھی مرحوم کا ترکہ شمار ہوگی اور تمام ورثاء میں شرعی ضابطۂ میراث کے مطابق تقسیم کی جائے گی، البتہ اگر تمام ورثاء عاقل بالغ ہوں اور وہ اس وصیت پر عمل کرنے کی اجازت دے دیں تو ان کی رضامندی کے بعد اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"(قال رحمه الله) قد بينا أن الوصية للوارث لا تجوز بدون إجازة الورثة لقوله عليه السلام: «لا وصية لوارث إلى أن يجيزه الورثة."
(كتاب الوصايا، باب الوصية للوارث والأجنبي والقاتل، ج: 27 ص: 175 ط: دار المورفة)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144601102015
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن