ایک غیر شادی شدہ عورت کا انتقال ہوا،ترکہ میں پانچ لاکھ روپے ہیں، ورثاء میں والد، تین بھائی اور تین بہنیں ہیں۔
ترکہ کیسے تقسیم ہوگا؟ والد ، بھائی اور بہنوں کو کتنا کتنا حصہ ملے گا؟
صور تِ مسئولہ میں مرحومہ کی جائیداد کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحومہ کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد ، اگر مرحومہ پر قرضہ ہےتو اس کو کُل ترکہ میں سے ادا کرنے کے بعد، اور اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہے،تو اس کو بقیہ مال کے ایک تہائی میں سے نافذ کرنے کے بعد باقی کُل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کے اکیلے حق دار مرحومہ کے والد ہیں، والد کی موجودگی میں بھائی بہنوں کو کچھ نہیں ملے گا۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
میت: 1
والد | بھائی | بھائی | بھائی | بہن | بہن | بہن |
1 | محروم |
فتاوی شامی میں ہے:
"ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب،
(قوله: ويقدم الأقرب فالأقرب إلخ) أي الأقرب جهة ثم الأقرب درجة ثم الأقوى قرابة فاعتبار الترجيح أولا بالجهة عند الاجتماع، فيقدم جزؤه كالابن وابنه على أصله كالأب وأبيه ويقدم أصله على جزء أبيه كالإخوة لغير أم وأبنائهم."
(کتاب الفرائض، فصل في العصبات، ج:6، ص:774، ط: دار الفکر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144511102557
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن