1۔میری تمام جائیدادیں اور پراپرٹی میرے نام ہےاور میری ہی ملکیت ہے،میں ابھی زندہ ہوں تو پوچھنایہ ہےکہ کیا میں اپنی زندگی میں اپنا جائیداد تقسیم کرسکتاہوں؟ یعنی مجھے شرعاً یہ اجازت ہے کہ میں اپنی جائیداد کو زندگی میں اپنی اولا دمیں سے جس کو جتناچاہوں د ے سکوں؟
2۔کیا میں اپنے جائیدامیں کسی قسم کے تصرف کرنےکےلیے کسی قسم کے مشورہ کرلینے کا پا بند ہوں یانہیں؟اور اپنی مطلقہ بیوی(جس کو تحریری طور پر ایک طلاق دی تھی اور طلاق کے الفاظ یہ تھےکہ” میں تمہیں طلاق دیتاہوں“اور اب اس کی عدت گزر چکی ہے) کواپنا حصہ دے سکتاہوں یا نہیں؟نیز اپنی جائیداد میں سے کچھ حصہ اپنے نواسےکو نقد یا قسطوں میں بیچ سکتا ہوں یا نہیں؟
3۔میرا ایک چھوٹا بچہ گند ی لت (سیگریٹ وغیر ہ )میں لگ گیا ہےاور میں بحیثیت باپ ان کا علاج کروانا چاہتاہوں،لیکن اس کی بیو ی اس میں رکاوٹ ڈال رہی ہے،اور مجھے اس کا علاج ومعالجہ نہیں کرنے دے رہی تو کیا میں از روئے شرع اس کا زبردستی علاج کرواسکتاہوں یا نہیں؟
1۔ صورتِ مسئولہ میں سائل جب تک زندہ ہے اپنے جائیداد کا تن تنہا مالک ہےاولا د وغیرہ کاکوئی حق و حصہ نہیں ہےاور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل ہےالبتہ سائل اگر اپنی مرضی اور خوشی سے اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو اس کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنے لیے جتنا چاہے رکھ لے تاکہ بوقت ضرورت کام آئےاورجس سے بقیہ زندگی بغیر محتاجگی کے گزار سکے، اس کے بعد بقیہ جائیداد اولاد (بیٹوں اور بیٹیوں) میں برابری کے ساتھ تقسیم کردے اور ہر ایک کو اپنا حصہ مکمل قبضہ اور تصرف کے ساتھ دے دے، کسی شرعی وجہ کے بغیر اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) میں کمی بیشی کرنا جائز نہیں، لیکن اگر کسی کی خدمت،اطاعت، دین داری یا محتاجگی کی وجہ سے اسے اوروں کی بہ نسبت زیادہ دے تو اس کی گنجائش ہے۔
2۔سائل اپنی جائیداد میں کسی بھی قسم کا تصر ف کرسکتاہے کسی سے مشورہ لینے کا پابند نہیں ہے،اور اپنی جائیدا دمیں سے نواسے کو کچھ حصہ نقد یا قسطوں میں بیچنا سب جائز ہے ،سائل کی مطلقہ بیوی کا سائل کے جائیداد میں کوئی حق نہیں ہے،تاہم اگر سائل بطور تبرع واحسان کے کچھ دینا چاہے تو دے سکتاہے۔
3۔سائل پر اخلاقاً اپنے بیٹے کا علاج کرانا لازم ہے بیٹے کی بیوی کو منع کرنے کا کوئی حق نہیں ہے،البتہ علاج ومعالجہ پر بیٹے کا راضی ہونا شرط ہےعلاج کےلیے سائل کا بیٹے پر جبر کرنا درست نہیں ہوگا۔
البحر الرائق میں ہے :
وفي الخلاصة المختار التسوية بين الذكر والأنثى في الهبة
( کتاب الہبہ،ج:7،ص:288 ،ط: دار الكتاب الإسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
”وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى.“
(کتاب الہبہ،ج:5 ،ص:696،ط: سعید)
وفیہ ایضاً:
”(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل.“
(کتاب الہبہ،ج:5 ،ص:690،ط: سعید)
وفیہ ایضاً:
”(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر ... (قوله بأنواعها) من الطعام والكسوة والسكنى، ولم أر من ذكر هنا أجرة الطبيب وثمن الأدوية، وإنما ذكروا عدم الوجوب للزوجة، نعم صرحوا بأن الأب إذا كان مريضا أو به زمانة يحتاج إلى الخدمة فعلى ابنه خادمه وكذلك الابن ..... (قوله الفقير) أي إن لم يبلغ حد الكسب .....(وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب لا يشاركه) أي الأب ولو فقيراً (أحد في ذلك كنفقة أبويه وعرسه) به يفتى .“
(کتاب الطلاق، باب النفقۃ، ج:3،ص:615،ط:سعید)
فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144607101529
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن