بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کا بیٹے کو اپنی بیوی سے دور رکھنے کی وجہ سے بیٹے کے گناہ میں مبتلا ہونے کی صورت میں شرعی حکم


سوال

میں شادی شدہ شخص ہوں، لیکن میرے والدین کے کہنے پر میری بیوی ایک سال کراچی میں ہوتی ہے اور ایک سال کوئٹہ میں اور بیگم کے دور ہونے کی وجہ سے میں اکثر گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہوں؛ کیوں کے والدچار یا پانچ مہینے کے بعد جانے کی اجازت دیتے ہیں، تو کیا میں والد کی مرضی کے خلاف جاسکتا ہوں یعنی اپنی مرضی پر اپنے پاس رکھ سکتا ہوں؟ جس میں میرے والد کی ناراضگی ہو سکتی ہیں۔

 

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے والدین اور بیوی ،بچوں میں سے ہر ایک کے حقوق مقرر کر دیئے ہیں، دونوں میں سے کسی بھی ایک کی حق تلفی کرناجائز نہیں ،لیکن ساتھ  ہی ساتھ ناحق بات اور گناہ  کی بات میں کسی کی اطاعت کی گنجائش  نہیں ہے۔

اگر سائل یا اس کی بیوی کو ایک دوسرے سے دورہنے کی وجہ سے گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو سائل کے لیے اپنی بیوی سے دور رہنا جائز نہیں، سائل پر لازم ہے کہ اپنےوالدین کو حکمت و بصیرت سے سمجھائے اور انہیں اعتماد میں لے کر اس کے ساتھ رہے۔

قرآن کریم میں ہے:

اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ وَ لَا تُضَآرُّوْهُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْهِنَّ[سورة الطلاق:6]

ترجمہ: ”تم ان  عورتوں کو اپنی وسعت کے موافق رہنے کا مکان دو جہاں تم رہتے ہو اور ان کو تنگ کرنے کے لئے (اس کے بارے میں) تکلیف مت پہنچاؤ“

مسند احمد میں ہے :

" عن علي رضي الله عنه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال : لا طاعة لمخلوق في معصية الله عز وجل."

(الجزء الثاني : ج 2 ، ص 333، ط : مؤسسة الرسالة)

ترجمہ :" اللہ تعالٰی کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ "

التفسیر المظہری میں ہے:

"(مسئلة) لا يجوز إطاعة الوالدين إذا امرا بترك فريضة أو إتيان مكروه تحريما؛ لأن ترك الامتثال لأمر الله والامتثال لأمر غيره إشراك معنى، ولما روينا من قوله عليه السّلام: لاطاعة للمخلوق فى معصية الخالق، ويجب إطاعتهما إذا أمرا بشئ مباح لا يمنعه العقل والشرع."

(سورۃ لقمان:ج7،ص256،ط: مکتبة الرشدیه)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويؤيد ذلك أن عمر رضي الله تعالى عنه لما سمع في الليل امرأة تقول: فوالله لولا الله تخشى عواقبه لزحزح من هذا السرير جوانبه فسأل عنها فإذا زوجها في الجهاد، فسأل بنته حفصة: كم تصبر المرأة عن الرجل: فقالت أربعة أشهر، فأمر أمراء الأجناد أن لا يتخلف المتزوج عن أهله أكثر منها، ولو لم يكن في هذه المدة زيادة مضارة بها لما شرع الله تعالى الفراق بالإيلاء فيها."

(كتاب الطلاق، باب القسم بين الزوجات، ج:3، ص:203، ط:سعيد)

وفیه أیضاً:

"(وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب. ويسقط حقها بمرة ويجب ديانة أحيانا ولا يبلغ الإيلاء إلا برضاها.

(قوله بل يستحب) أي ما ذكر من المجامعة ح (قوله ويسقط حقها بمرة) قال في الفتح: واعلم أن ترك جماعها مطلقا لا يحل له، صرح أصحابنا بأن جماعها أحيانا واجب ديانة، لكن لا يدخل تحت القضاء والإلزام إلا الوطأة الأولى ولم يقدروا فيه مدة.

ويجب أن لا يبلغ به مدة الإيلاء إلا برضاها وطيب نفسها به."

(كتاب الطلاق، باب القسم بين الزوجات، ج:3، ص:203، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403101008

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں