میں نے ایک دُکان کرایہ پر لی، اُس دُکان کے لیے ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے ایڈوانس رقم رکھوائی، جس میں سے تیس ہزار والد صاحب نے دیے تھے۔ اس دُکان میں سامان لایا گیا، جس کی آدھی قیمت میں نے اپنی جیب سے ادا کی اور آدھی قیمت والد صاحب نے بطور احسان و ہمدردی کے دی،والد صاحب کی طرف سے رقم کی ادائیگی کے وقت یہ صراحت ہوئی تھی کہ والد صاحب یہ رقم نہ تو قرض کے طور پر دے رہے ہیں، اور نہ ہی میرے ساتھ کاروبار میں شریک ہونے کے لیے دے رہے ہیں، بلکہ محض ہمدردری اور احسان کے طور پر دے رہے ہیں۔
اس دُکان سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی مکمل میرے استعمال میں رہتی تھی، گھر کے سارے اخراجات بھی میرے ذمہ میں تھے۔ اس دُکان میں میرے ساتھ میرے بھائی بھی کام کرتے تھے، لیکن ان کی اجرت طے تھی، جو ان کو ملا کرتی تھی۔ اس دکان کے نفع اور کمائی سے میں نے مختلف کاروبا رشروع کیے۔
پوچھنا یہ ہے کہ دُکان اور اس کے علاوہ دیگر کاروبار میں والد صاحب کا حصہ بنتا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل کے والد صاحب نے سائل کو کاروبار شروع کرنے کے لیے مذکورہ رقم بطور تبرع اور احسان کے دی تھی، اور قرض یا شرکت کے طور پر نہیں دی تھی، تو مذکورہ کاروبار اور اس سے حاصل شدہ نفع، اور مزید جو کاروبار سائل نے شروع کیے ان سب کا تنہا مالک سائل قرار پائے گا، جس میں سائل کے والد یا بھائی کا بحیثیت شریک کوئی حصہ نہیں ہوگا۔
تاہم سائل کو چاہیے اپنے کاروبار میں سے کچھ حصہ والد صاحب کی حیات تک ان کے لیے رکھے، تاکہ ان کے احسانات کا بدلہ کسی نہ کسی درجہ میں ادا ہوسکے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"ولو دفع إلى ابنه مالا فتصرف فيه الابن يكون للابن إذا دلت دلالة على التمليك."
(كتاب الهبة، ج:5، ص:697، ط: دار الفکر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"رجل دفع إلى ابنه في صحته مالا يتصرف فيه ففعل وكثر ذلك فمات الأب إن أعطاه هبة فالكل له، وإن دفع إليه لأن يعمل فيه للأب فهو ميراث، كذا في جواهر الفتاوى."
(كتاب الهبة، الباب السادس في الهبة للصغير، ج:4، ص:392، ط:دار الفکر)
فيض الباری میں ہے:
"ثم اعلم أن في الفقه بابا يسمى بالتبرع، ولا يوجد متميزا عن باب الهبة، إلا أنه يذكر في ضمن المسائل، فلينقح الفرق بين البابين، لاختلاف أحكامهما، ففي «القنية»: المتبرع لا يرجع فيما تبرع به، فباب الرجوع لا يمشي في التبرعات، بخلاف الهبة."
(كتاب الهبة وفضلها والتحريض عليها، باب هبة الواحد للجماعة، باب هبة الواحد للجماعة، ج: 4، ص:58، ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144605100842
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن