میں نے اپنے بیٹے کو دوتولہ سونا اور ایک کنال زمین دی ، تاکہ وہ اپنی بیوی کو حقِ مہر میں دے دے، چناں چہ اس نے یہ دونوں چیزیں دے دیں، اور میں نے یہ چیزیں اس قوی امید پر دی تھیں کہ یہ میری خدمت کرے گااور اگر اس نے خدمت نہیں کی تو میں یہ چیزیں واپس لے لوں گا، اب نو سال ہوچکے ہیں اور میرا بیٹا خدمت وغیرہ کچھ بھی نہیں کرتا، یہاں تک کہ سلام بھی نہیں کرتا، میری بہو اور اس کےگھر والوں نے میرے پیچھے بندے لگائے ہوئے ہیں، اور اس کے گھر والے مجھے مروانا چاہتے ہیں، میں ،میری بیوی، دو بچیاں اور ایک دیوانہ بچہ ہے، اور مجھ پر دس لاکھ روپے قرض ہے، لہذا شریعت کے مطابق مجھے انصاف دلائیں۔
صورتِ مسئولہ میں سائل نےجب اپنے بیٹے کو دوتولہ سونا اور ایک کنال زمین بیوی کا حقِ مہر ادا کرنے کے لیے دی اور بیٹے نے مذکورہ دونوں چیزیں اپنی بیوی کو مہر میں دے بھی دیں تو مذکورہ دونوں چیزیں سائل کی ملکیت سے نکل کر سائل کی بہو کی ملکیت میں آچکی تھیں، لہذا سائل کو اب مذکورہ دونوں چیزیں واپس لینے کا حق نہیں ہے۔
اولاد پروالدین کےبہت سے حقوق لازم ہیں اور جائز کام میں حسبِ استطاعت ان کی اطاعت ضروری ہے، اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں جہاں اپنی بندگی کی دعوت دی ہے وہیں والدین کے ساتھ اچھے سلوک کرنے کا حکم بھی فرمایا ہے اور اپنے شکر کے ساتھ والدین کے شکر کرنے کا بھی حکم دیاہے، چناں چہ ارشادِ باری تعالی ہے:
"وَإِذْ قالَ لُقْمَاْنُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ یبُنَيَّ لاتُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ، وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ بِوالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْناً عَلى وَهْنٍ وَّفِصالُهُ فِي عامَيْنِ أَنِ اشْكُرْلِي وَ لِوالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ." (سورة: لقمان، الأية:23،24)
’’ترجمہ:اور جب کہا لقمان نے اپنے بیٹے کو جب اس کو سمجھانے لگا اے بیٹے شریک نہ ٹھہرائیو اللہ کا بے شک شریک بنانا بھاری بےانصافی ہے، اور ہم نے تاکید کر دی انسان کو اس کے ماں باپ کے واسطے پیٹ میں رکھا اس کو اس کی ماں نے تھک تھک کر اور دودھ چھڑانا ہے اس کا دو برس میں کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا آخر مجھ ہی تک آنا ہے۔‘‘(بیان القرآن)
خاص کر جب والدین بوڑھے ہوجائیں تو ایسی حالت میں بھی شریعت نے والدین کو غصہ و ناراضگی میں زبان سے ’’اف‘‘ تک کا لفظ (کہ جس سے ان کو تکلیف ہو) کہنے سے منع کیا ہے یعنی والدین کو ایذا دینا تو در کنار! انہیں خالی ایسا لفظ جس سے انہیں تکلیف ہو زبان پر لانابھی منع ہے۔
چناں چہ قرآن کریم میں ہے:
"وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوٓاْ إِلَّآ إِيَّاهُ وَبِٱلۡوَٰلِدَيۡنِ إِحْسَانًاۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ ٱلْكِبَرَ أَحَدُهُمَآ أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا وَٱخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ ٱلذُّلِّ مِنَ ٱلرَّحمَةِ وَقُل رَّبِّ ٱرْحَمۡهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا."(سورة: الإسراء، الأية: 23،٢٤)
’’ترجمہ:اور حکم کر چکا تیرا رب کہ نہ پوجو اس کے سوائے اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اگر پہنچ جائے تیرے سامنے بڑھاپے کو ایک ان میں سے یا دونوں تو نہ کہہ ان کو ہوں اور نہ جھڑک ان کو اور کہہ ان سے بات ادب کی، اور جھکا دے ان کے آگے کندھے عاجزی کر نیاز مندی سے اور کہہ اے رب ان پر رحم کر جیسا پالا انہوں نے مجھ کو چھوٹا سا۔‘‘(بیان القرآن)
نیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی احادیث میں والدین سے اچھا سلوک اوراچھا معاملہ کرنے کاحکم فرمایا ہے اور ان کی نافرمانی سے روکا ہے اور جو اولاد ماں یا باپ کی نافرمانی کرے ان کے لیے سخت وعید یں ہیں، حتی کہ متعدد احادیث میں یہ وارد ہے کہ شب قدر جیسی مبارک رات جس میں اللہ تعالی کی مغفرت ، بخشش و رحمت بالکل عام ہوتی ہے، اس میں بھی سوائے چار آدمیوں کے اللہ تعالی سب امتِ مسلمہ کی مغفرت فرماتے ہیں، ان چار قسم کے لوگوں میں ایک شخص والدین کی نافرمانی کرنے والا ہے، جس کی اللہ تعالی اس مبارک مغفرت والی رات میں بھی معافی نہیں فرماتے ، صورتِ مسئولہ میں سائل کے بیٹے کا اپنے والد سے بات نہ کرنا اور ان کی خدمت سے کترانا اور ان کو سلام تک نہ کرنا غیرشرعی حرکتیں ہیں، لہذا سائل کے بیٹے کو اپنی ان مذکورہ حرکتوں سے باز آجانا چاہیے، اور اس پر لازم ہے کہ اپنے والدین کی فرماں برداری کرکے ان کو راضی رکھے، اور ان کی تمام ضروریات قرض وغیرہ کو پورا کرے اور ان کی خدمت میں پوری توجہ دے، ماں باپ کی نافرمانی ایسا گناہ ہے کہ اللہ تعالی اس کی سزا دنیا میں بھی دیتے ہیں اور آخرت میں بھی دیں گے۔
العقودالدریہ فی تنقیح الحامدیہ میں ہے:
"المتبرع لا يرجع بما تبرع به على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره."
(كتاب المداينات، ج:2، ص:226، ط:دار المعرفة)
فتاوٰی شامی میں ہے:
"(وحكمها ثبوت الملك للموهوب له..(و) حكمها (أنها لا تبطل بالشروط الفاسدة) فهبة عبد على أن يعتقه تصح ويبطل الشرط....(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".
(كتاب الهبة، ج:5، ص:689، 690، ط:سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144606101258
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن