بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

والد کا والدہ کے لیے مکان کی وصیت کرنا اور والدہ کا زندگی میں اولاد کو ہبہ کرنا


سوال

ہماری والدہ کے پاس ایک مکان ہے، ہم ان کی  8 اولاد  ہیں، 7 بیٹیاں اور ایک بیٹا ، ہماری والدہ  یہ چاہتی ہیں کہ میں یہ مکان  اپنی اولاد کو اپنی زندگی میں دے دوں  تو کیا ان کے لیے اپنی اولاد میں سے کسی ایک  کو یا چند کو مکان دینا جائز ہے یا نہیں ؟

تنقیح: مکان والد مرحوم کا ہے یا والدہ کا؟

جواب تنقیح:  مکان والد صاحب کا تھا ، والد اور والدہ اسی گھر میں رہائش پذیر تھے، والد  صاحب نے زندگی میں یہ کہا تھا کہ میرے مرنے کے بعد  یہ مکان  (سائل کی ) والدہ کا ہوگا، اب والد کے انتقال کے بعد یہ مکان والدہ کے پاس ہے، ہم یہی سمجھتے ہیں کہ یہ مکان والدہ کا ہے۔

جواب

صورت ِ مسئولہ میں  سائل کے مرحوم والد نے اپنی ملکیتی مکان کے بارے میں جو یہ کہا تھا کہ : ” میرے مرنے کے بعد  یہ مکان (سائل کی ) والدہ کا ہوگا“ تو شرعاً یہ ”وصیت“ ہے، اور کسی وارث کے لیے وصیت کے معتبر ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وصیت کرنے والے کے انتقال کے بعد تمام عاقل ، بالغ  ورثاء اس وصیت کو  نافذ کرنے پر  خوش دلی سے راضی ہوں، تمام عاقل بالغ ورثاء کی اجازت کے بغیر  وارث کے لیے وصیت نافذ نہیں ہوتی بلکہ کالعدم ہوجاتی ہے۔لہذا اگر سائل کے والد کے انتقال کے بعد ان تمام شرعی ورثاء  نے  رضا وخوشی سے  والد کی وصیت کے مطابق یہ مکان اپنی والدہ کو دے دیا تو یہ مکان ان کی ملکیت ہوگیا، اب   ایسی صورت میں اگر وہ اپنی  زندگی میں اپنی خوشی سے  اولاد کے درمیان تقسیم کر نا چاہتی ہیں تو  اس کا طریقہ یہ ہے کہ  سب اولاد میں برابر تقسیم کریں  یعنی جتنا بیٹے کو دیں اتنا ہی بیٹی کو دیں،  نہ کسی کو محروم کریں اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کریں۔نیز اپنی  زندگی میں اپنی  اولاد کے درمیان   جو جائیداد تقسیم کریں  تو ہر ایک کو  اس کا حصہ  الگ الگ کرکے   قبضہ وتصرف  کے ساتھ مالک  بناکر دے  دیں، البتہ  اگر اپنی اولاد میں سے کسی کو   مالی طور پر کمزور ہونے یا  دِین داری یا  زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر دوسرے کے  بنسبت کچھ زیادہ دینا چاہتی ہیں اور اس سے دیگر بیٹوں اور  بیٹیوں کو نقصان پہنچانا مقصود نہیں ہے تو اس کی گنجائش ہوگی ، تاہم کسی بیٹے یا بیٹی کو بالکلیہ محروم کرنا درست نہیں۔

اور اگر سائل کے والد کے انتقال کے بعد تمام عاقل بالغ ورثاء  نے والد کی وصیت کو نافذ کرنے کی اجازت نہیں دی  تو ایسی صورت میں مذکورہ مکان  والد کا ترکہ  ہے جو  ان کے تمام شرعی ورثاء میں شرعی حصص کے مطابق تقسیم ہوگا۔ یعنی آٹھواں حصہ (100 میں 12.50) سائل کی والدہ کا، اور باقی  بیٹا اور بیٹی  میں دو ، ایک کے حساب سے تقسیم ہوگا ، بیٹوں کو بیٹیوں کی نسبت دگنا ملے گا۔

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة."

(كتاب الوصايا، الباب الأول في تفسيرها...، 90/6، ط: رشيدية)

الدرالمختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(ولا لوارثه وقاتله مباشرة)  (إلا بإجازة ورثته) لقوله  عليه الصلاة والسلام: «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة» يعني عند وجود وارث آخر كما يفيده آخر الحديث  (وهم كبار) عقلاء فلم تجز إجازة صغير ومجنون وإجازة المريض كابتداء وصية ولو أجاز البعض ورد البعض جاز على المجيز بقدر حصته."

(کتاب الوصایا، 6/ 655، 656، ط: سعید)

وفیہ أیضاً:

"وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى."

(کتاب الھبة، 5/ 696،  ط: سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144512100042

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں