بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

والد کے ساتھ رہتے ہوئے اپنی ذاتی کمائی سے خریدے گئے مکان کا حکم


سوال

ہم تین بھائیوں نے ایک دکان کرایہ پر لی ہوئی تھی ،پھراس دکان کے منافع سے ہم تینوں نے 1997 میں ایک مکان خریدا،اس مکان کو خریدنے میں ہمارے والدین کا کوئی پیسہ نہیں لگا تھا،والدہ بھی اس بات کا اقرار کرتی ہے  کہ انہوں نے اس مکان میں ایک روپیہ نہیں لگایا ہے،والد کا انتقال 2003 میں ہوگیا تھا،والد صاحب کی اپنی دکان تھی ، اپناالگ  کاروبار تھا،اور ہمارا اپنا الگ کاروبار ہے،البتہ ہم سب کی رہائش ،کھانا پینا ایک ہی گھر میں تھا یعنی سب ساتھ رہتے تھے،مکان کو خریدتے وقت جب نام کروانے کی بات آئی تو ہمارے بہنوئی نے مذکورہ مکان ہماری والدہ کے نام کروالیا،ہم نے انہیں بارہا کہا کہ مکان ہمارا ہے لہذااسے  ہمارے نام پر کروادے،لیکن وہ نہ مانے ،اور وہ بہن کی وجہ سے ہمیں دھمکاتے بھی رہے،جس کی وجہ سے ہم خاموش ہوگئے،    اب بہنوئی مذکورہ مکان میں حصہ کی بات کر رہا ہے کہ اس میں تمام بہن بھائیوں کا حصہ ہے،اب میرا سوال یہ ہے کہ کیامذکورہ مکان میں ہم سب بہن بھائیوں  کا حصہ ہوگایا یہ مکان  صرف ہم تین بھائیوں کی ملکیت ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ  آپ تینوں بھائی اپنے کاروبار سے الگ کماتے تھےاگر چہ آپ  لوگوں کا کھانا پینا اور باقی خرچہ ایک ساتھ ہوتاتھا، اور اسی  اپنی کمائی سے آپ تینوں نے مذکورہ  مکان خریدا ہے، اس میں نہ تو والد صاحب کی رقم خرچ ہوئی ہے، اور نہ والدہ یاکسی اوربھائی بہن کی، اس لئے مذکورہ مکان آپ تینوں بھائیوں کی مشترکہ ملکیت ہے،دیگر بہن بھائیوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے،اورنہ  بہنوئی کا مذکورہ مکان کو آپ کی والدہ کے نام پر کرنے سےیہ مکان ان کی ملکیت ہوئی   ہے۔اسی طرحآپ کے  بہنوئی کا مذکورہ مکان میں تمام بہن بھائیوں کے حصہ دار ہونے  کی بات کرنابھی  درست نہیں ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألالا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه»."

(کتاب البیوع،باب الغصب والعاریۃ،الفصل الثانی،ج:2،ص:889،رقم:2946،ط:المکتب الاسلامی بیروت)

ترجمہ:" خبردار!  اے مسلمانو! ظلم نہ کیا کرو، اور یاد رکھو کسی شخص کا مال اس کی دلی رضامندی کے بغیر دوسرے شخص کے لیے حلال نہیں ہے۔"

درر الحكام فی شرح مجلۃ الاحکام ميں ہے:

"و يوجد ثلاثة شروط لأجل اعتبار الولد معينا لأبيه:1 - اتحاد الصنعة، فإذا كان الأب مزارعا والابن صانع أحذية فكسب الأب من المزارعة والابن من صنعة الحذاء، فكسب كل منهما لنفسه وليس للأب المداخلة في كسب ابنه لكونه في عياله.

وقول المجلة: (مع ابنه) إشارة لهذا الشرط. مثلا إن زيدا يسكن مع أبيه عمرو في بيت واحد ويعيش من طعام أبيه وقد كسب مالا آخر فليس لإخوانه بعد وفاة أبيه إدخال ما كسبه زيد في الشركة ...(ولده) ليس احترازيا فالحكم في الزوجة والإخوة على الوجه المذكور أيضا وذلك لو عمل أحد في صنعة مع زوجته الموجودة في عيال و اكتسبا أموالًا فكافة الكسب للزوج وتعد الزوجة معينة (الهندية) أما إذا كان للزوجة كسب على حدة فكافة الكسب لها و لاتعد معينة للزوج."

(كتاب الشركة :المادة:1398:ج:3:ص:421:ط:دار الجيل)

شرح المجلۃ لرستم باز  میں ہے:

"إذا عمل رجل في صنعة هو وابنه الذي في عیاله فجمیع الکسب لذلك الرجل، و ولدہ یعد معینًا له، فيه قیدان احترازیان کما تشعر عبارۃ المتن، الأول: أن یکون الابن في عیال الأب، الثاني: أن یعملا معا في صنعة واحدۃ إذ لو کان لکل منهما صنعة یعمل فيها وحدہ فربحه له."

(المبحث الثاني بیان المسائل المتعلقة بشرکة الاعمال،ج:2،ص:582،مادۃ:1398،ط:رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة (وقوله: بخلاف جعلته باسمك) قال في البحر: قيد بقوله: لك؛ لأنه لو قال: جعلته باسمك، لا يكون هبة؛ ولهذا قال في الخلاصة: لو غرس لابنه كرما إن قال: جعلته لابني، يكون هبة، وإن قال: باسم ابني، لايكون هبةً."

(كتاب الهبة،ج:5،ص:689، ط:سعید)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602102413

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں