بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

والد کے ترکہ میں حصہ ہونے کی صورت میں طالب علم کا مدرسہ میں زکوٰۃ سے وظیفہ لینا


سوال

میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے، والد صاحب کی متروکہ جائیداد ہے جو کہ ہم چار بھائیوں کے درمیان مشترکہ ہے،تمام جائیداد اور کاروبار ایک بھائی سنبھالتا ہے،اور اس  میں سے اپنی ضروریات کے لیے  مناسب خرچہ اور جیب خرچ ملتا ہے، سوال یہ ہے کہ میں طالب علم ہوں، مدرسہ میں ہمیں زکات کی مد میں وظیفہ ملتا ہے اور دیگر اخراجات  کھانے پینے وغیرہ کے بھی زکات کی رقم سے ہوتے ہیں تو کیا  میرے لیے مدرسہ کا کھانا، اور وظیفہ لینا جائز ہے یا نہیں؟ 

میرا اصل وطن چمن ہے، جب کہ  پڑھائی  کی وجہ سے میری عارضی رہائش بیوی بچوں سمیت کراچی میں بھی ہے، تو کیا میں مسافر شمار ہوتا ہوں یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے  والد کے انتقال کے بعد  متروکہ جائیداد  اور کاروبار میں جو سائل کا حصہ ہے اگر وہ نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی)  کے بقدر یا اس سے زیادہ ہے ، اور باہمی رضامندی سے  اس کا انتظام ایک بھائی سنبھالتا ہے، جس سے  سائل کو ضروریات   کے مناسب خرچہ  اور جیب خرچ بھی ملتا ہے تو سائل زکات کا مستحق نہیں ہے، اس  کے لیے مدرسہ میں سے زکات کی مد میں سے وظیفہ وغیرہ لینا جائز نہیں ہے۔

نیز سائل  پڑھائی کی وجہ سے عارضی طور پر کراچی میں جو بیوی بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہے تو اگر آپ  ایک مرتبہ بھی یہاں  پندرہ دن سے زیادہ ٹھہرچکے ہیں (جیسا کہ ظاہراً یہی معلوم ہورہا ہے)  تو اب جب تک اپنی رہائش ختم کرکے  اپنے سازوسامان اور بیوی  بچوں کے ساتھ اپنے وطن  واپس نہیں چلے جاتے،  تب تک  کراچی آپ کا وطن اقامت ہے، آپ یہاں بھی مقیم کے حکم میں ہیں، مسافر نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وابن السبيل وهو) كل (من له ماله لا معه) ومنه ما لو كان ماله مؤجلا أو على غائب أو معسر أو جاحد ولو له بينة في الأصح.

(قوله: من له مال لا معه) أي سواء كان هو في غير وطنه أو في وطنه وله ديون لا يقدر على أخذها كما في النهر عن النقاية لكن الزيلعي جعل الثاني ملحقا به حيث قال: وألحق به كل من هو غائب عن ماله وإن كان في بلده؛ لأن الحاجة هي المعتبرة وقد وجدت؛ لأنه فقير يدًا وإن كان غنيًّا ظاهرًا. اهـ.وتبعه في الدرر والفتح وهو ظاهر كلام الشارح وقال في الفتح أيضا: ولا يحل له أي لابن السبيل أن يأخذ أكثر من حاجته والأولى له أن يستقرض إن قدر ولا يلزمه ذلك لجواز عجزه عن الأداء ولايلزمه التصدق بما فضل في يده عند قدرته على ماله كالفقير إذا استغنى والمكاتب إذا عجز. وعندهما من مال الزكاة لايلزمها التصدق اهـ.
قلت: وهذا بخلاف الفقير فإنه يحل له أن يأخذ أكثر من حاجته وبهذا فارق ابن السبيل كما أفاده في الذخيرة. (قوله: ومنه ما لو كان ماله مؤجلًا) أي إذا احتاج إلى النفقة له أخذ الزكاة قدر كفايته إلى حلول الأجل، نهر عن الخانية. (قوله: أو على غائب) أي ولو كان حالاً لعدم تمكنه من أخذه ط (قوله: أو معسرًا) فيجوز له الأخذ في أصح الأقاويل؛ لأنه بمنزلة ابن السبيل، ولو موسرًا معترفًا لايجوز، كما في الخانية وفي الفتح: دفع إلى فقيرة لها مهر دين على زوجها يبلغ نصابًا وهو موسر بحيث لو طلبت أعطاها لايجوز وإن كان لايعطي لو طلبت جاز."

 (كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة، 2/ 343، ط: سعيد)

وفیه أیضاً:

"(الوطن الأصلي) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه (يبطل بمثله) إذا لم يبق له بالأول أهل، فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما (لا غير و) يبطل (وطن الإقامة بمثله و) بالوطن (الأصلي و) بإنشاء (السفر) والأصل أن الشيء يبطل بمثله، وبما فوقه لا بما دونه ولم يذكر وطن السكنى وهو ما نوى فيه أقل من نصف شهر لعدم فائدته۔

(قوله: ويبطل وطن الإقامة) يسمى أيضا الوطن المستعار والحادث وهو ما خرج إليه بنية إقامة نصف شهر سواء كان بينه وبين الأصلي مسيرة السفر أو لا، وهذا رواية ابن سماعة عن محمد وعنه أن المسافة شرط والأول هو المختار عند الأكثرين قهستاني. (قوله: بمثله) أي سواء كان بينهما مسيرة سفر أو لا قهستاني. (قوله: وبالوطن الأصلي) كما إذا توطن بمكة نصف شهر ثم تأهل بمنى، أفاده القهستاني. (قوله: وبإنشاء السفر) أي منه وكذا من غيره إذا لم يمر فيه عليه قبل سير مدة السفر.

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر،2/ 131، ط: سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144606100962

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں