ایک لڑکی کا نکاح پانچ سال کی عمر میں اس کے والد کی عدم موجودگی میں بھائی نے کروایا تھا، لڑکی کے والد سعودی عرب میں تھے، ان کا گھر والوں سے مستقل رابطہ بھی تھا، لیکن لڑکی کے بھائی نے والد صاحب کے علم میں لائے بغیر خود سے لڑکی کا نکاح کردیا، جب والد صاحب کو پانچ سالہ بیٹی کے نکاح کا علم ہوا تو انہوں نے فوراً انکار کردیا تھا اور تاحال اسی انکار پر قائم ہیں، لڑکی نے بھی بالغ ہوتے ہی اس جگہ شادی کرنے سے انکار کردیا تھا، کیا شرعاً یہ نکاح باقی ہے یا ٹوٹ چکا ہے؟
واضح رہے کہ نابالغ بچے یا بچی کا نکاح ولی کی اجازت پر موقوف ہوتا ہے، اگر ولی کی اجازت کے بغیر کوئی نابالغ بچے یا بچی کا نکاح کردے تو ایسا نکاح ولی کی اجازت پر موقوف رہتا ہے، اسی طرح اگر قریبی ولی کی موجودگی میں دور کا ولی نابالغ بچے یا بچی کا نکاح کروادے تو وہ نکاح بھی قریبی ولی کی اجازت پر موقوف ہوتا ہے، اگر قریبی ولی اس نکاح کو جائز قرار دے دے تو نکاح جائز ہوجاتا ہے، لیکن اگر قریبی ولی اس نکاح کو جائز قرار نہ دے تو وہ نکاح باقی نہیں رہتا، بلکہ ختم ہوجاتا ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں چوں کہ والد لڑکی کا قریبی ولی ہے، جب کہ بھائی والد کے مقابلے میں دور کا ولی ہے، اس لیے شرعی ضابطے کے مطابق پانچ سالہ نابالغ بچی کے نکاح کا اختیار بچی کے والد کو حاصل تھا، لہٰذا بچی کے والد سے رابطہ ہونے کے باوجود بچی کے بھائی نے والد کے علم میں لائے بغیرجو نکاح کروایا تھا وہ بچی کے والد کی مرضی اور اجازت پر موقوف تھا، جب بچی کے والد نےمذکورہ نکاح کا علم ہونے کے بعد اس نکاح کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا تو یہ نکاح کالعدم ہوگیا تھا، اس لیے شرعاً یہ نکاح اب باقی نہیں ہے، بلکہ ختم ہوچکا ہے ۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"تثبت الولاية بأسباب أربعة بالقرابة والولاء والإمامة والملك، كذا في البحر الرائق. وأقرب الأولياء إلى المرأة الابن ثم ابن الابن، وإن سفل ثم الأب ثم الجد أبو الأب، وإن علا، كذا في المحيط. فإذا كان للمجنونة أب وابن أو جد وابن؛ فالولاية للابن عندهما وعند محمد - رحمه الله تعالى - للأب، كذا في السراج الوهاج. والأفضل أن يأمر الأب الابن بالنكاح حتى يجوز بلا خلاف، كذا في شرح الطحاوي. ثم الأخ لأب وأم ... وإن زوج الصغير أو الصغيرة أبعد الأولياء فإن كان الأقرب حاضرا وهو من أهل الولاية توقف نكاح الأبعد على إجازته، وإن لم يكن من أهل الولاية بأن كان صغيرا أو كان كبيرا مجنونا جاز، وإن كان الأقرب غائبا غيبة منقطعة؛ جاز نكاح الأبعد، كذا في المحيط ... ثم قدر الغيبة بمسافة القصر وهو اختيار أكثر المتأخرين وعليه الفتوى. وقال شمس الأئمة السرخسي ومحمد بن الفضل الأصح أنه مقدر بفوات الكفء الحاضر الخاطب إلى استطلاع رأيه وهذا أحسن، كذا في التبيين. وعليه الفتوى، كذا في جواهر الأخلاطي. حتى لو كان مختفيا في البلدة لا يوقف عليه يكون غيبة منقطعة، كذا في شرح مجمع البحرين. فإن كان الأقرب جوالا لا يوقف على أثره أو كان مفقودا لا يعرف مكانه أو مختفيا في البلد لا يوقف عليه قال القاضي الإمام أبو الحسن علي السغدي: يكون هو بمنزلة الغائب غيبة منقطعة فإن كان زوجها الأبعد ثم ظهر أنه كان مختفيا في المصر جاز نكاح الأبعد، كذا في فتاوى قاضي خان. ولو زوجها الأبعد حال قيام الأقرب حتى توقف على إجازة الأقرب ثم غاب الأقرب وتحولت الولاية إلى الأبعد لا يجوز ذلك النكاح الذي باشره الأبعد إلا بإجازة منه بعد تحول الولاية إليه هكذا في الظهيرية. واختلف مشايخنا في ولاية الأقرب أنها تزول بالغيبة أم بقيت؟ . قال بعضهم: إنها باقية إلا أنه حدث للأبعد ولاية بغيبة الأقرب فتصير كأن لها وليين مستويين في الدرجة كالأخوين والعمين، وقال بعضهم: تزول ولايته وتنتقل إلى الأبعد وهو الأصح، كذا في البدائع. فلو زوجها حيث هو لا رواية فيه وينبغي أن لا يجوز لانقطاع ولايته، كذا في محيط السرخسي، وإن زوجها الأقرب حيث هو اختلفوا فيه والظاهر هو الجواز، كذا في فتاوى قاضي خان والظهيرية."
(كتاب النكاح، الباب الرابع في الأولياء في النكاح،1/ 283،ط. رشيديه)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602100462
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن